ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند میں گرہن کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں لگتا ہے، جب تم اسے دیکھو تو اللہ عزوجل سے دعا کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور صدقہ و خیرات کرو“۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1191]
اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کسوف میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1192]
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ دو دو رکعتیں پڑھتے جاتے اور سورج کے متعلق پوچھتے جاتے یہاں تک کہ وہ صاف ہو گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1193]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الکسوف 16 (1486)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 152 (1262)، (تحفة الأشراف: 11631)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/267، 269، 271، 277) (منکر)» (دیکھئے حدیث نمبر: 1185)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا، تو آپ نماز کسوف کے لیے کھڑے ہوئے تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع ہی نہیں کریں گے، پھر رکوع کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھائیں گے ہی نہیں، پھر سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر سجدے سے سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے سر اٹھایا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، پھر اخیر سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھونک ماری اور ”اف اف“ کہا: پھر فرمایا: ”اے میرے رب! کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک میں ان میں رہوں گا؟ کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے؟“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور حال یہ تھا کہ سورج بالکل صاف ہو گیا تھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1194]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الکسوف 14 (1483)، 20 (1497)، سنن الترمذی/الشمائل 44 (307)، (تحفة الأشراف: 8639)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الکسوف 3 (1045)، 8 (1058)، صحیح مسلم/الکسوف 5 (910)، مسند احمد (2/175) (صحیح)» (ہر رکعت میں دو رکوع کے ذکر کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے، جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لكن بذكر الركوع مرتين كما في الصحيحين
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا کہ اسی دوران سورج گرہن لگا تو میں نے انہیں پھینک دیا اور کہا کہ میں ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ سورج گرہن آج کیا نیا واقعہ رونما کرے گا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ دونوں ہاتھ اٹھائے اللہ کی تسبیح، تحمید اور تہلیل اور دعا کر رہے تھے یہاں تک کہ سورج سے گرہن چھٹ گیا، اس وقت آپ نے (نماز کسوف کی دونوں رکعتوں) میں دو سورتیں پڑھیں اور دو رکوع کئے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1195]
نضر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تاریکی چھا گئی، تو میں آپ کے پاس آیا اور کہا: ابوحمزہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی آپ لوگوں پر اس طرح کی صورت حال پیش آئی تھی؟ انہوں نے کہا: اللہ کی پناہ، اگر ہوا ذرا زور سے چلنے لگتی تو ہم قیامت کے خوف سے بھاگ کر مسجد آ جاتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1196]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1625) (ضعیف)» (اس کے راوی نضر بن عبداللہ قیسی مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
12. باب السُّجُودِ عِنْدَ الآيَاتِ
12. باب: نشانیوں اور حادثات کے ظہور کے وقت سجدہ کرنے کا بیان۔
عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاں بیوی کا انتقال ہو گیا ہے، تو وہ یہ سن کر سجدے میں گر پڑے، ان سے کہا گیا: کیا اس وقت آپ سجدہ کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم کوئی نشانی (یعنی بڑا حادثہ) دیکھو تو سجدہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی موت سے بڑھ کر کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1197]