ابوزناد نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام نے ایک دوسرے کو دلائل دیے اور آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو دلیل دے ہرا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: آپ وہی آدم ہیں جنہوں نے (خود غلطی کر کے اپنی اولاد کے) لوگوں کو غلطیاں کرنے کا راستہ دکھایا اور انہیں جنت سے نکلوا دیا؟ تو آدم علیہ السلام نے فرمایا: تمہی ہو جسے اللہ نے ہر چیز کا علم دیا اور جسے لوگوں میں سے اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا؟ انہوں نے کہا: ہاں، (تو آدم علیہ السلام نے) فرمایا: تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو جو مجھے پیدا کیے جانے سے بھی پہلے میرے مقدر کر دی گئی تھی؟"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم ؑ اور موسیٰ ؑ میں مباحثہ ہوا تو آدم ؑ غالب آگئےچنانچہ موسی ؑ نے انہیں کہا، آپ وہ آدم ہیں جس نے لوگوں کو (جنت کی راہ سے) ہٹا دیا اور انہیں جنت سے نکلوادیا؟" تو آدم ؑ نے جواب دیا، آپ وہ شخصیت ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم دیا اور لوگوں پر اپنی پیغامبری کے سبب برگزیدہ کیا موسیٰ ؑ نے کہا ہاں آدم ؑ نے کہا تو مجھے ایسے معاملہ پر ملامت کرتے ہو۔ جس کا میرے بارے میں میری پیدائش سے بھی پہلے فیصلہ ہو چکا تھا۔"
حارث بن ابی ذباب نے یزید بن ہرمز اور عبدالرحمٰن اعرج سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: ہم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام نے اپنے رب کے سامنے ایک دوسرے کو دلیلیں دیں اور حضرت آدم علیہ السلام دلیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے، حضرت موسیٰ نے کہا: آپ وہ آدم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور آپ میں اپنی روح کو پھونکا اور آپ کو فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں رکھا، پھر آپ نے اپنی غلطی سے لوگوں کو جنت سے نکلوا کر زمین میں اتروا دیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: تم وہ موسیٰ ہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت بخشی اور تمہیں (تورات کی) وہ تختیاں عطا کیں جن میں ہر چیز کی وضاحت ہے اور تمہیں سرگوشی کے لیے جانے والا بنا کر اپنا قرب عطا فرمایا۔ (تم یہ بتاؤ) تمہارے علم کے مطابق اللہ نے میری پیدائش سے کتنی مدت پہلے تورات کو (اس صورت میں) لکھا (جس طرح وہ تم پر نازل ہوئی؟) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: چالیس سال سے (قبل۔) حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: کیا تم نے اس میں یہ (لکھا ہوا) پایا: "آدم نے اپنے پروردگار (کے حکم) سے سرتابی کی اور راہ سے ہٹ گیا"؟ (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: کیا تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو کہ میں نے وہ کام کیا جو اللہ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے مجھ پر لکھ دیا تھا کہ میں وہ کام کروں گا؟" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس طرح آدم علیہ السلام نے دلیل سے موسیٰ علیہ السلام کو لاجواب کر دیا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم اور موسیٰ ؑ کا اپنے رب کے حضور مباحثہ ہوا تو آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آگئے، موسی ؑ نے کہا، آپ وہ آدم ؑ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور تجھ میں اپنی روح پھونکی اور تجھے اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور تجھے اپنی جنت میں آباد کیا، پھر تونے اپنی چوک کی پاداش میں لوگوں کو زمین میں اتروادیا۔ چنانچہ آدم ؑ نے جواب دیا،آپ وہ موسیٰ ؑ ہیں جسے اللہ نے اپنی رسالت اور ہم کلامی کے لیے منتخب فرمایا اور تجھے وہ تختیاں دی جن میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور تجھے سر گوشی کا شرف بخشا (سرگوشی کے لیے تجھے قرب بخشا) تو آپ نے میری تخلیق سے کتنا عرصہ پہلے اللہ کو توراۃ لکھے ہوئے پایا۔"موسیٰ ؑ نے کہا، چالیس سال، آدم ؑ نے پوچھا، کیا آپ نے اس میں یہ بھی لکھا ہوا پایا، آدم ؑ نے اپنے رب کی (غیر شعوری طور پر) نافرمانی کی، اس لیے وہ اپنے (مقصد) کو نہ پا سکے، کہا ہاں آدم ؑ نے کہا کیا مجھے ایسے عمل کے کرنے پر ملامت کرتے ہیں جس کا کرنا اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لازم ٹھہرا چکا تھا؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس طرح آدم ؑ غالب آگئے۔"
حمید بن عبدالرحمٰن نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام نے دلائل کا تبادلہ کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ آدم ہیں جن کی خطا نے انہیں جنت سے باہر نکالا؟ تو حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: کیا تم موسیٰ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور ہم کلامی سے دوسروں پر فضیلت دی، پھر تم مجھے اس معاملے میں ملامت کر رہے ہو جو میری پیدائش سے پہلے میرے لیے مقدر کر دیا گیا تھا؟ اس طرح آدم علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو دلیل سے خاموش کر دیا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم ؑ اور موسیٰ ؑ میں مکالمہ ہوا تو موسیٰ ؑ نے انہیں کہاآپ وہ آدم ؑ ہیں، جس کی چوک نے اسے جنت سے نکلوادیا تو آدم ؑ نے انہیں کہا، آپ وہ موسیٰ ہیں جس کو اللہ نے اپنی رسالت اور ہم کلامی کے لیے چن لیا۔ پھر تم جھے ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو میری پیدائش سے پہلے فیصلہ ہو چکا تھا چنانچہ آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔"
ابن وہب نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابوہانی خولانی نے ابو عبدالرحمٰن حبلی سے خبر دی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں تحریر فرما دیں تھی۔ فرمایا: اور اس کا عرش پانی پر تھا۔"
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقادیر، آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھیں اور اس کا عرش پانی پر تھا۔"
حیوہ نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے ابوہانی نے بتایا، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن حبلی سے سنا، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا، کہا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "بنی آدم کے سارے دل ایک دل کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اسے (ان سب کو) گھماتا ہے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔"
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا،"بنو آدم کے تمام قلوب رحمن کی انگلیوں میں سے، دو انگلیوں کے درمیان ہیں، ایک دل کی طرح وہ اسے جیسے چاہے پھیر دیتا ہے "پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی،"اے اللہ! دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دل، اپنی اطاعت و بندگی کی طرف پھیردے۔"
عمرو بن مسلم نے طاوس سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابہ کو پایا وہ سب کے سب یہ کہتے تھے کہ ہر چیز (اللہ کی مقرر کردہ) مقدار سے ہے اور میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر چیز (اللہ کی مقرر کردہ) مقدار سے ہے یہاں تک کہ (کسی کام کو) نہ کر سکنا اور کر سکنا بھی، یا کہا: (کسی کام کو) کر سکنا اور نہ کر سکنا (بھی اسی مقدار سے ہے۔) "
طاؤس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اصحاب کو ملا، سب یہی کہتے تھے ہر چیز تقدیر سے ہے اور میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے حتی کہ عجزو بے بسی (ناقابل و ناکارہ ہونا)اور مہارت و ہوشیاری بھی دانشمندی و ہوشیاری اور بے بسی و کمزوری بھی۔"
محمد بن عباد بن جعفر مخزومی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کرنے کے لیے آئے، اس وقت (یہ آیت) نازل ہوئی: "جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے، (کہا جائے گا:) دوزخ کا عذاب چکھو، بےشک ہم نے ہر چیز کو (طے شدہ) مقدار کے مطابق بنایا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریشی مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ آپ سے تقدیر کے مسئلہ پر جھگڑتے تھے، چنانچہ یہ آیات اتریں۔"جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے،(کہا جائے گا)دوزخ کے عذاب سے دو چارہو، بے شک ہم نے ہر چیز کو اندازہ سے بنایا ہے۔"قمرآیت نمبر48۔49)