1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزهد والرقائق
کتاب: دنیا سے نفرت دلانے اور دل کو نرم کرنے والی احادیث کا بیان
963. باب الزهد والرقائق
963. باب: دنیا سے نفرت دلانے اور دل کو نرم کرنے والی احادیث کا بیان
حدیث نمبر: 1865
1865 صحيح حديث أَنَسِ بن مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلاَثَةٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ، وَيَبْقَى عَمَلُهُ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کے ساتھ تین چیزیں چلتی ہیں دو تو واپس آ جاتی ہیں صرف ایک کام اس کے ساتھ رہ جاتا ہے، اس کے ساتھ اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل چلتا ہے، اس کے گھر والے اور مال تو واپس آ جاتے ہیں اور اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1865]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 42 باب سكرات الموت»

حدیث نمبر: 1866
1866 صحيح حديث عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الأَنْصَارِيِّ، وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأتِي بِجِزْيَتِهَا وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمُ الْعَلاَءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ فَسَمِعَتِ الأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَتْ صَلاَةَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا صَلَّى بِهِمُ الْفَجْرَ انْصَرَفَ فَتَعَرَّضُوا لَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ رَآهُمْ وَقَالَ: أَظُنُّكُم قَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدْ جَاءَ بِشَيْءٍ قَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: فَأَبْشِروا وَأَمِّلوا مَا يَسُرُّكُمْ فَوَاللهِ لاَ الْفَقْرَ أَخْشى عَلَيْكُمْ، وَلكِنْ أَخْشى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن لؤی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے لوگوں سے صلح کی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو حاکم بنایا تھا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین کا مال لے کر آئے تو انصار کو معلوم ہو گیا کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ گئے ہیں۔ چنانچہ فجر کی نماز سب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے تو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہیں خوشخبری ہو، اور اس چیز کے لئے تم پر امید ہو جس سے تمہیں خوشی ہو گی، لیکن خدا کی قسم! میں تمہارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا۔ مجھے اگر خوف ہے تو اس بات کا کہ دنیا کے دروازے تم پر اس طرح کھول دیئے جائیں گے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دیئے گئے تھے، تو ایسا نہ ہو کہ تم بھی ان کی طرح ایک دوسرے سے جلنے لگو اور یہ جلنا تم کو بھی اسی طرح تباہ کر دے جیسا کہ پہلے لوگوں کو کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1866]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 58 كتاب الجزية: 1 باب الجزية والموادعة مع أهل الحرب»

حدیث نمبر: 1867
1867 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل وصورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اس وقت اسے ایسے شخص کا دھیان کرنا چاہئے جو اس سے کم درجہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1867]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 30 باب لينظر إلى من هو أسفل منه ولا ينظر إلى من هو فوقه»

حدیث نمبر: 1868
1868 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ ثَلاَثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمى بَدَا للهِ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الأَبْرَصَ فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ قَدْ قَذِرَنِيَ النَّاسُ قَالَ: فَمَسَحَهُ، فَذَهَبَ عَنْهُ فَأُعْطِيَ لَوْناً حَسَناً فَقَالَ: أيُّ الماَلِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ: الإِبِلُ فَأُعْطِىَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ: يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الأَقْرَعَ فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي هذَا قَدْ قَذِرَنِيَ النَّاسُ قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ: الْبَقَرُ قَالَ: فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلاً وَقَالَ: يُبَارَك لَكَ فِيهَا وَأَتَى الأَعْمى، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ: يَرُدُّ اللهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ: الْغَنْمُ فَأَعْطَاهُ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجن هذَانِ وَوَلَّدَ هذَا فَكَانَ لِهذِهِ وَادٍ مِنْ إِبِلٍ، وَلِهذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ، وِلِهذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ تَقَطَّعَتْ بِيَ الْجِبَالُ فِي سَفَرِي فَلاَ بَلاَغَ الْيَوْمَ إلا بِاللهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ، بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ، وَالجِلْدَ الْحَسَنَ، وَالْمَالَ، بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ لَهُ: إِنَّ الْحُقُوقَ كَثِيرَةٌ فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ، فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللهُ فَقَالَ: لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ وَأَتَى الأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهذَا فَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هذَا فَقَالَ: إِن كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كنْتَ وَأَتَى الأَعْمى فِي صُورَتِهِ فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ، وَابْنُ سَبِيلٍ، وَتَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلاَ بَلاَغَ الْيَوْمَ إِلاَّ بِاللهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ، بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ، شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمى فَرَدَّ اللهُ بَصَرِي، وَفَقِيرًا فَقَدْ أَغْنَانِي فَخُذْ مَا شِئْتَ فَوَاللهِ لاَ أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ بِشَيْءٍ أَخَذْتَهُ للهِ فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنْكَ، وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ٗ آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ٗ ایک کوڑھی ٗ دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا ٗ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا اونٹ! یا اس نے گائے کہی۔چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا ٗ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے ٗ کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آگئے۔ فرشتے نے پوچھا ٗ کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دے دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے ٗ یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ٗ گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہو ٗ سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ٗ لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ، اچھا چمڑا اور مال عطا کیا ٗ ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتے نے کہا: غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں ٗ کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کیا کرتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے، پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے‘ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس اپنی پہلی صورت میں آیا ٗ اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں ٗ سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے ٗ ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو ٗ اللہ کی قسم! جب تم نے خدا کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ ٗ میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ٗ یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1868]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 51 باب حديث أبرص وأقرع وأعمى في بني إسرائيل»

حدیث نمبر: 1869
1869 صحيح حديث سَعْدٍ، قَالَ: إِنِّي لأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللهِ وَرَأَيْتُنَا نَغْزُو وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلاَّ وَرَقُ الْحُبْلَةِ وَهذَا السَّمُرُ وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ، مَالَهُ خِلْطٌ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ تُعَزِّرُنِي عَلَى الإِسْلاَمِ خِبْتُ إِذًا، وَضَلَّ سَعْيِي
حضرت سعد (بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں سب سے پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلائے۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ جہاد کر رہے تھے اور ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز حبلہ کے پتوں اور اس ببول کے سوا کھانے کے لئے نہیں تھی اور بکری کی مینگنوں کی طرح ہم پاخانہ کیا کرتے تھے۔ اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھ کو اسلام سکھلا کر درست کرنا چاہتے ہیں پھر تو میں بالکل بدنصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1869]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 17 باب كيف كان عيش النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه وتخليهم من الدنيا»

حدیث نمبر: 1870
1870 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ ارْزُقْ آلَ مُحَمَّدٍ قُوتًا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ آل محمد کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1870]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 17 باب كيف كان عيش النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه»

حدیث نمبر: 1871
1871 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، مِنْ طَعَامِ الْبُرِّ، ثَلاَثَ لَيَالٍ تِبَاعًا، حَتَّى قُبِضَ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی برابر تین دن تک گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1871]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 23 باب ما كان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه يأكلون»

حدیث نمبر: 1872
1872 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا أَكَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَكْلَتَيْنِ فِي يَوْمٍ، إِلاَّ إِحْدَاهُمَا تَمْرٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانہ نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1872]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 17 باب كيف كان عيش النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأصحابه»

حدیث نمبر: 1873
1873 صحيح حديث عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ لِعُرْوَةَ: ابْنَ أُخْتِي إِنْ كُنَّا لَنَنْظرُ إِلَى الْهِلاَلِ ثُمَّ الْهِلاَلِ، ثَلاَثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوقِدَتْ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَار (قَالَ عُرْوَةُ) فَقُلْتُ: يَا خَالةُ مَا كَانَ يُعِيشُكُمْ قَالَتِ: الأَسْوَدَانِ: التَّمْرُ وَالْمَاءُ إِلاَّ أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جِيرَانٌ مِنَ الأَنْصَارِ، كَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَكَانُوا يَمْنَحُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهِمْ فَيَسْقِينَا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے عروہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرے بھانجے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں (یہ حال تھا کہ) ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا دیکھتے، پھر تیسرا دیکھتے، اسی طرح دودو مہینے گزر جاتے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں کھانا پکانے کے لیے آگ نہ جلتی تھی۔(حضرت عروہ کہتے ہیں) میں نے پوچھا: خالہ اماں! پھر آپ لوگ زندہ کس طرح رہتی تھیں؟ آپ نے فرمایا کہ صرف دو کالی چیزوں کھجور اور پانی پر، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند انصاری پڑوسی تھے۔ جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں بھی ان کا دودھ تحفہ کے طور پر پہنچا جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمیں بھی پلا دیا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1873]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 51 كتاب الهبة: 1 باب الهبة وفضلها والتحريض عليها»

حدیث نمبر: 1874
1874 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ شَبِعْنَا مِنَ الأَسْوَدَيْنِ: التَّمْرِ وَالْمَاءِ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ہم ان دنوں دو کالی چیزوں پانی اور کھجور سے سیر ہو جانے لگے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزهد والرقائق/حدیث: 1874]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة 60 باب من أكل حتى شبع»


1    2    3    Next