حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ننگے پاؤں، ننگے جسم، بلاختنہ کے اٹھائے جاؤ گے۔ “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ اس پر میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!تو کیا مرد عورتیں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہو گا۔ اس کا خیال بھی کوئی نہیں کر سکے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1817]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 45 باب كيف الحشر»
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم لوگ قیامت کے دن اس حال میں جمع کئے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسم ہو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”جس طرح ہم نے شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح لوٹا دیں گے“ اور تمام مخلوقات میں سب سے پہلے جسے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے اور میری امت کے بہت سے لوگ لائے جائیں گے جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ میں اس پر کہوں گا اے میرے رب!یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی نئی بدعات نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ ؑ) نے کہا کہ یا اللہ!میں جب تک ان میں موجود رہا اس وقت تک میں ان پر گواہ تھا۔ (المائدہ ۱۱۷۔۱۱۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ فرشتے (مجھ سے) کہیں گے کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنی ایڑیوں کے بل پھرتے ہی رہے۔ (مرتد ہوتے رہے)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1818]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 45 باب كيف الحشر»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا(ایک فرقہ والے) لوگ رغبت کرنے، نیز ڈرنے والے ہوں گے (دوسرا فرقہ ایسے لوگوں کا ہو گا کہ) ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی (اہل شرک کا یہ تیسرا فرقہ ہو گا) جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہوگی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہوگی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہوگی۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1819]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 45 باب كيف الحشر»
942. باب في صفة يوم القيامة، أعاننا الله على أهوالها
942. باب: قیامت کے دن کا حال… اللہ تعالیٰ اس کی ہولناکی سے مدد فرمائے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس دن لوگ دونوں جہان کے پالنے والے کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑے ہوں گے تو کانوں کی لو تک پسینہ میں ڈوب جائیں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1820]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 83 سورة ويل للمطففين»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہو جائیں گے اور حالت یہ ہو جائے گی کہ تم میں سے ہر کسی کا پسینہ زمین پر ستر ہاتھ تک پھیل جائے گا اور منہ تک پہنچ کر کانوں کو چھونے لگے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1821]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 47 باب قول الله تعالى (ألا يظن أولئك أنهم مبعوثون ليوم عظيم»
943. باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه، وإِثْبات عذاب القبر والتعوّذ منه
943. باب: میت کو اس کا ٹھکانہ دکھائے جانے کا بیان اور عذاب قبر کا اثبات اور اس سے پناہ مانگنے کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح و شام دکھایا جاتا ہے اگر وہ جتنی ہے تو جنت والوں میں اور جو دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1822]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 90 باب الميت يعرض عليه مقعده بالغداة والعشي»
حدیث نمبر: 1823
1823 صحيح حديث أَبِي أَيُّوبَ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ: يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ اس وقت آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ (یہودیوں پر عذاب قبر کی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1823]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 88 باب التعوذ من عذاب القبر»
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے (منکر نکیر) اس کے پاس آتے ہیں‘ وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کا ٹھکانا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تمھارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1824]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 87 باب ما جاء في عذاب القبر»
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تویہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورۂ ابراہیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات، یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1825]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 87 باب ما جاء في عذاب القبر»
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے۔ جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سواری پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے، صحابہ نے کہا، غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں۔ آخر آپ اس کنویں کے کنارے آکر کھڑے ہوگئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میںاللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ بے شک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا۔ تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جووعدہ(عذاب کا) تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول پڑے یا رسول اللہ! آپ ان لاشوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1826]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 8 باب قتل أبي جهل»