حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے۔ جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سواری پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے، صحابہ نے کہا، غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں۔ آخر آپ اس کنویں کے کنارے آکر کھڑے ہوگئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میںاللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ بے شک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا۔ تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جووعدہ(عذاب کا) تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول پڑے یا رسول اللہ! آپ ان لاشوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها/حدیث: 1826]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 8 باب قتل أبي جهل»
وضاحت: جو لوگ اس واقعہ سے سماع موتی ثابت کرتے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں۔ کیونکہ یہ سنانا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا۔ قرآن حکیم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ وما انت بسمع من فی القبور یعنی آپ قبر والوں کو سنانے سے قاصر ہیں۔ مرنے کے بعد جملہ دنیاوی تعلقات ٹوٹنے کے ساتھ دنیاوی زندگی کے لوازمات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ سننا بھی اسی میں شامل ہے۔ اگر مردے سنتے ہوں تو ان پر مردگی کا حکم لگانا ہی غلط ٹھہرتا ہے۔ (راز)