حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ!میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہارا باپ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1652]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 78 کتاب الأدب: 2 باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ۔»
حدیث نمبر: 1653
1653 صحيح حَديثُ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما، قَالَ: جاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الجِهَادِ. فَقَالَ: «أَحَيُّ وَالِدَاكَ؟» قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: «فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ»
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر انہی میں جہاد کرو۔ (یعنی ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرو)[اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1653]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجہ البخاري في: 56 کتاب الجہاد: 138 باب الجہاد بإذن الأَبَوَیْنِ۔»
853. باب تَقْدِيم بِرِّ الوالِدَيْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا
853. باب: نفل نماز وغیرہ پر والدین کی اطاعت مقدم ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے بات نہیں کی۔ اول عیسیٰ علیہ السلام (دوسرے کا واقعہ یہ ہے کہ) بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے ٗ نام جریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں نے انہیں پکارا۔ انہوں نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں والدہ کا جواب دوں گا یا نماز پڑھتا رہوں گا؟ اس پر ان کی والدہ نے (ناراض) بد دعا کی ٗ اے اللہ! اس وقت تک) اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اور ان سے بدکاری چاہی لیکن انہوں نے (اس کی خواہش پوری کرنے سے) انکار کیا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے اپنے اوپر قابو دے دیا۔ اس سے ایک بچہ پیدا ہوا اور اس نے ان پر یہ تہمت دھری کہ یہ جریج کا بچہ ہے۔ ان کی قوم کے لوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا ٗ انہیں نیچے اتار کر لائے اور انہیں گالیاں دیں۔ پھر انہوں نے وضو کرکے نماز پڑھی ٗ اس کے بعد بچے کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے؟ بچہ (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا ہے۔ اس پر (ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور) کہا کہ ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں ٗ مٹی ہی کا بنے گا (تیسرا واقعہ) اور ایک بنی اسرائیل کی عورت تھی ٗ اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ قریب سے ایک سوار نہایت عزت والا اور خوش پوش گزرا اس عورت نے دعا کی ٗ اے اللہ! میرے بچے کو بھی اسی جیسا بنا دے لیکن بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ پھر اس کے سینے سے لگ کر دودھ پینے لگا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جیسے میں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی چوس رہے ہیں (بچے کے دودھ پینے کی کیفیت بتلاتے وقت) پھر ایک باندی اس کے قریب سے لے جائی گئی (جسے اس کے مالک مار رہے تھے) تو اس عورت نے دعا کی کہ اے اللہ! میرے بچے کو اس جیسا نہ بنانا۔ بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور کہا کہ اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنا دے۔ اس عورت نے پوچھا۔ ایسا تو کیوں کہہ رہا ہے؟ بچے نے کہا کہ وہ سوار ظالموں میں سے ایک ظالم شخص تھا اور اس باندی سے لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے چوری کی اور زنا کیا حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1654]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 60 کتاب الأنبیاء: 48 باب واذکر في الکتاب مریم۔»
854. باب صِلَةِ الرِّحِمِ وَتَحْرِيمِ قَطِيعَتِهَا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ٗ جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو ”رحم“ نے کھڑے ہو کر رحم کرنے والے اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ نے پوچھا کیا بات ہے؟ رحم نے عرض کی: میں قطع رحمی (رشتہ داری ختم کرنے) سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑوں۔ رحم نے عرض کیا ٗ ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٗ پھر ایسا ہی ہوگا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا(اطمینان کے لیے) جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ”اگر تم کنارہ کش رہو تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ تم لوگ دین میں فساد مچا دو گے اور آپس میں قطع تعلق کر لو گے۔“[اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1655]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 65 کتاب التفسیر: 47 سورۃ محمد صلي الله عليه وسلم: ۱ باب وتقطعوا ارحامکم۔»
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا کہ ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“[اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1656]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 78 کتاب الأدب: 11 باب إثم القاطع۔»
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جو شخص اپنی روزی میں کشادگی چاہتا ہو یا عمر کی درازی چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1657]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 34 کتاب البیوع: 31 باب من أحب البسط في الرزق۔»
855. باب النَّهْيِ عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّبَاغُضِ وَالتَّدَابُرِ
855. باب: حسد، بغض اور بول چال ختم کرنا حرام ہے
حدیث نمبر: 1658
1658 صحيح حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا. وَكُونُوا عِبَادَ الله إِخْوَاناً. وَلاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ»
سیّدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ ایک بھائی کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ کر رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1658]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 78 کتاب الأدب: 57 باب ما ینہي عن التحاسد والتدابیر۔»
856. باب تحريم الهَجْرِ فَوْقَ ثَلاَث بِلاَ عُذْرٍ شَرْعِيِّ
856. باب: شرعی عذر کے بغیر تین دن سے اوپر کسی مسلمان سے خفا رہنا حرام ہے
سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لئے ملاقات چھوڑے، اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1659]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجہ البخاري في: 78 کتاب الأدب: 62 باب الہجرۃ وقول رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم لا یحل لرجل أن یھجر أخاہ فوق ثلاث۔»
857. باب تَحْرِيمِ الظَّنِّ وَالتَّجَسِّسِ والتَّنَافُسِ والتَّنَاجُشِ وَنَحْوِهَا
857. باب: بد گمانی کرنا، ٹوہ لگانا، شک کرنا اور دھوکے کی نیت سے بڑھ چڑھ کر قیمت لگانا وغیرہ حرام کام ہیں
حدیث نمبر: 1660
1660 صحيح حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَن رَسُولَ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ. وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَبَاغُضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا. وَكُونوا عِبَادَ الله إِخْوَانًا»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1660]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 78 کتاب الأدب: 85 باب یا أیہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرًا من الظن۔»
858. باب: مومن کو کوئی بیماری یا رنج و غم پہنچے حتیٰ کہ کانٹا بھی چبھے تو اس کا ثواب ہے
حدیث نمبر: 1661
1661 صحيح حَدِيثُ عَائِشَةَ رضي الله عنها، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَيْهِ الوَجَعُ مِنْ رَسُولِ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ میں نے (مرض وفات کی تکلیف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کسی میں نہیں دیکھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1661]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجہ البخاري في: 57 کتاب المرضی: 2 باب شدۃ المرض۔»