1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ
کتاب: نیکی اور سلوک اور ادب کے مسائل
852. باب بِرِّ الوَالِدَيْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ
852. باب: والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا بیان اور وہ اس کے زیادہ حق دار ہیں
حدیث نمبر: 1653
1653 صحيح حَديثُ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما، قَالَ: جاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الجِهَادِ. فَقَالَ: «أَحَيُّ وَالِدَاكَ؟» قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: «فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ»
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر انہی میں جہاد کرو۔ (یعنی ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرو) [اللؤلؤ والمرجان/كِتَابُ البِرِّ والصِّلَةِ وَالآدَابِ/حدیث: 1653]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجہ البخاري في: 56 کتاب الجہاد: 138 باب الجہاد بإذن الأَبَوَیْنِ۔»

وضاحت: اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب نکالا ہے کہ ماں باپ کی رضا مندی جہاد میں جانے کے واسطے ضروری ہے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خدمت جہاد پر مقدم رکھی۔ (راز)