1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الفضائل
کتاب: فضائل و مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 1528
1528 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَأَى عِيسى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلاً يسْرِقُ فَقَالَ لَهُ: أَسَرَقْتَ قَالَ: كَلاَّ، وَاللهِ الَّذِي لاَ إِلهَ إِلاَّ هُوَ فَقَالَ عِيسى: آمَنْتُ بِاللهِ وَكَذَّبْتُ عَيْنِي
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا، پھر اس سے دریافت فرمایا: تو نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں! حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور میری آنکھوں کو دھوکا ہوا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1528]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 48 باب واذكر في الكتاب مريم»

801. باب من فضائل إِبراهيم الخليلؑ
801. باب: حضرت ابراہیم ؑ کے فضائل
حدیث نمبر: 1529
1529 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً، بِالْقَدُّومِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1529]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 8 باب قول الله تعالى (واتخذ الله إبراهيم خليلاً»

حدیث نمبر: 1530
1530 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ، إِذْ قَالَ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي وَيَرْحَمُ اللهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لأَجَبْتُ الدَّاعِيَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم ایمان نہیں لائے، انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں، لیکن یہ صرف اس لئے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے کہ وہ زبردست رکن (یعنی خداوند کریم کی پناہ لیتے تھے) اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کی بات ضرور مان لیتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1530]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 11 باب قوله عز وجل (ونبئهم عن ضيف إبراهيم»

حدیث نمبر: 1531
1531 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، إِلاَّ ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ: ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ قَوْلُهُ (إِنِّي سَقِيمٌ) وَقَوْلُهُ (بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذَا) وَقَالَ: بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ، إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّار مِنَ الْجَبَابِرَةِ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ ههُنَا رَجُلاً مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: مَنْ هذِهِ قَالَ: أُخْتِي فَأَتَى سَارَةَ، قَالَ: يَا سَارَةُ لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّ هذَا سَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، فَلاَ تُكَذِّبِينِي فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ، فَأُخِذَ فَقَالَ: ادْعِى اللهَ لِي، وَلاَ أَضُرُّكِ فَدَعَتِ اللهَ، فَأُطْلِقَ ثُمَّ تَنَاوَلَها الثَّانِيَةَ، فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ فَقَالَ: ادْعِي اللهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ فَدَعَتْ، فَأُطْلِقَ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِي بِإِنْسَانٍ، إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِي بِشِيْطَانٍ فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ فَأَتَتْهُ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ، مَهْيَا قَالَتْ رَدَّ اللهُ كَيْدَ الْكَافِرِ (أَوِ الْفَاجِرِ) فِي نَحْرِهِ، وَأَخْدَمَ هَاجَرَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے۔ ایک تو ان کا فرمانا (بطور توریہ کے) کہ میں بیمار ہوں اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم اور سارہ علیہ السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزرے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور حضرت سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری (دینی اعتبار سے) بہن ہو۔ اس لئے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں۔ پھر اس ظالم نے حضرت سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لئے اللہ سے دعا کرو (کہ اس مصیبت سے نجات دے) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا‘چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اس طرح پکڑ لیا گیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لئے دعا کرو، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلا کر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو، یہ تو کوئی سرکش جن ہے (جاتے ہوئے) سارہ علیہا السلام کو اس نے ہاجرہ علیہا السلام خدمت میں دیں۔ جب حضرت سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا (یہ کہا کہ) فاجر کے فریب کو اسی کے منہ پر دے مارا اور ہاجرہ کو خدمت کے لیے دیا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بنی ماء السماء (اے آسمانی پانی کی اولاد! یعنی اہل عرب) تمہاری والدہ یہی (حضرت ہاجرہ علیہا السلام) ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1531]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 8 باب قول الله تعالى (واتخذ الله إبراهيم خليلاً»

802. باب من فضائل موسىؑ
802. باب: حضرت موسیٰ ؑ کے فضائل
حدیث نمبر: 1532
1532 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً، يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ وَكَانَ مُوسى يَغْتَسِلُ وَحْدَه فَقَالُوا: وَاللهِ مَا يَمْنَعُ مُوسى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلاَّ أَنَّهُ آدَرُ فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ، فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ، فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ، فَخَرَجَ مُوسى فِي إِثْرِهِ يَقُولُ: ثَوْبِي يَا حَجَرُ حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى مُوسى، فَقَالُوا: وَاللهِ مَا بِمُوسى مِنْ بأسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَهُ، فَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللهِ إِنَّهُ لَنَدَبٌ بِالْحَجَرِ، سِتَّةٌ أَوْ سَبْعَةٌ، ضَرْبًا بِالحَجَرِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا پردے سے غسل فرماتے۔ اس پر انھوں نے کہا: بخدا! موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے، اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے: بخدا! موسیٰ علیہ السلام کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بخدا! اس پتھر پر چھے یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1532]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 5 كتاب الغسل: 20 باب من اغتسل عريانًا وحده في الخلوة»

حدیث نمبر: 1533
1533 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسى عَلَيهِ السَّلاَمُ فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لا يُرِيدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللهُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ وَقَالَ: ارْجِعْ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ بِهِ يَدُهُ، بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ قَالَ: أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ قَالَ: فَالآنَ فَسَأَلَ اللهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَوْ كُنْتُ ثَمَّ لأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الأَحْمَرِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے (نہ پہچان کر) انھیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کی کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کردی اور فرمایا: دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آجائیں ان کے ہربال کے بدلے ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔(موسیٰ علیہ السلام تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا تو) آپ نے کہا کہ اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بولے: تو ابھی کیوں نہ آجائے، پھر انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایک پتھر کی مار پر ارضِ مقدس سے قریب کر دیا جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں وہاں ہوتا تو تمھیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1533]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 69 باب من أحب الدفن في الأرض المقدسة»

حدیث نمبر: 1534
1534 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلاَنِ، رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَرَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ قَالَ الْمُسْلِمُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا عَلَى الْعَالَمِينَ فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: وَالَّذِي اصْطفَى مُوسى عَلَى الْعَالَمِينَ فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ يَدَهُ، عِنْدَ ذلِكَ، فَلَطَمَ وَجْهَ الْيَهُودِيّ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَه بِمَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ وَأَمْرِ الْمُسْلِمِ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذلِكَ، فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللهُ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دوشخصوں نے جن میں ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی، ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا والوں پر بزرگی دی اور یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ (p) کو تمام دنیا والوں پربزرگی دی۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھا کر یہودی کے طمانچہ مارا۔ وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورمسلمان کے ساتھ اپنے واقعے کو بیان کیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو بلایا اور ان سے واقعے کے متعلق پوچھا۔ انھوں نے آپ کو اس کی تفصیل بتا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا: مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔ لوگ قیامت کے دن بے ہوش کر دیے جائیں گے۔ میں بھی بے ہوش ہو جاؤںگا۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوںگا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہونے کے باوجود اور مجھ سے پہلے انھیں ہوش آجائے گا، یااللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1534]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 44 كتاب الخصومات: 1 باب ما يذكر في الإشخاص والخصومة بين المسلم واليهود»

حدیث نمبر: 1535
1535 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، جَاءَ يَهُودِيٌّ فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ ضَرَبَ وَجْهِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِكَ فَقَالَ: مَنْ قَالَ: رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ: ادْعُوهُ فَقَالَ: أَضَرَبْتَهُ قَالَ: سَمِعْتُهُ بِالسُّوقِ يَحْلِفُ، وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسى عَلَى الْبَشَرِ قلْتُ: أَيْ خَبِيثُ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْنِي غَضْبَةٌ ضَرَبْتُ وَجْهَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُخَيِّرُوا بَيْنَ الأَنْبِيَاءِ، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُون أَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ فَإِذَا أَنَا بِمُوسى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ أَمْ حُوسِبَ بِصَعْقَةِ الاولَى
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی آیا اور کہا اے ابوالقاسم! آپ کے اصحاب میں سے ایک نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کس نے؟ اس نے کہا کہ ایک انصاری نے۔ آپ نے فرمایا کہ انھیں بلاؤ۔ وہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اسے مارا ہے؟ انھوں نے کہا کہ میں نے اسے بازار میں یہ قسم کھاتے سنا۔ اس ذات کی قسم! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر بزرگی دی۔ میں نے کہا: او خبیث! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی! مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو انبیا میں باہم ایک دوسرے پر اس طرح بزرگی نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت میں بے ہوش ہو جائیںگے۔ اپنی قبر سے سب سے پہلے نکلنے والا میں ہی ہوں گا، لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرشِ الٰہی کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہوں گے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انھیں پہلی بے ہوشی جو طور پر ہو چکی ہے وہی کافی ہو گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1535]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 44 كتاب الخصومات: 1 باب في الإشخاص والخصومة بين المسلم واليهود»

803. باب في ذكر يونسؑ وقول النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا ينبغي لعبد أن يقول أنا خير من يونس بن متّى
803. باب: حضرت یونس ؑ کا ذکر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ کسی کو لائق نہیں یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں
حدیث نمبر: 1536
1536 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی شخص کے لیے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں حضرت یونس بن متی سے افضل ہوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1536]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 35 باب قول الله تعالى (وإن يونس لمن المرسلين»

حدیث نمبر: 1537
1537 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى وَنَسَبَهُ إِلَى أَبيهِ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کی طرف منسوب کر کے ان کا نام لیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1537]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 24 باب قول الله تعالى (وهل أتاك حديث موسى»


Previous    3    4    5    6    7    8    Next