1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الفضائل
کتاب: فضائل و مناقب کا بیان
776. باب في قتال جبريل وميكائيل عن النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يوم أُحُد
776. باب: غزوۂ احد کے دن فرشتوں کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑنا
حدیث نمبر: 1488
1488 صحيح حديث سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُلاَنِ يُقَاتِلاَنِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ، كَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتهُمَا قَبْلُ وَلاَ بَعْدُ
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ غزوۂ احد کے موقع پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کے ساتھ دو۔ اصحاب (یعنی جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام انسانی صورت میں) آئے ہوئے تھے وہ آپ کو اپنی حفاظت میں لے کر کفار سے بڑی سختی سے لڑ رہے تھے ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے میں نے انہیں نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1488]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 18 باب إذ همت طائفتان منكم أن تفشلا»

777. باب في شجاعة النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وتقدّمه للحرب
777. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اور جنگ کے لیے آگے بڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1489
1489 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً، فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ، لأَبِى طَلْحَةَ، عُرْيٍ، وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ، وَهُوَ يَقُولُ: لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ: وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ: إِنَّهُ لَبَحْرٌ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ (پر ایک آواز سن کر) بڑا خوف چھا گیا تھا، سب لوگ اس آواز کی طرف بڑھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہی واقعہ کی تحقیق کی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے جس کی پشت ننگی تھی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے تلوار لٹک رہی تھی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ڈرو مت۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے تو گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز پایا ہے یا (یہ فرمایا کہ) گھوڑا جیسے سمندر ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1489]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 82 باب الحمائل وتعليق السيف بالعنق»

778. باب كان النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أجود الناس بالخير من الرّيح المرسلة
778. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت میں تیز ہواؤں سے بڑھ کر تھے
حدیث نمبر: 1490
1490 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكونُ فِي رَمَضَانَ، حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ وہ (جبرئیل علیہ السلام) رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1490]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 1 كتاب بدء الوحي: 5 باب حدثنا عبدان»

779. باب كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أحسن الناس خلقًا
779. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوش اخلاقی میں سب سے بڑھ کر تھے
حدیث نمبر: 1491
1491 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي: أُفٍّ وَلاَ: لِمَ صَنَعْتَ وَلاَ: أَلاّ صَنَعْتَ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1491]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 39 باب حسن الخلق والسخاء وما يكره من البخل»

حدیث نمبر: 1492
1492 صحيح حديث أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، أَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَنَسًا غُلاَمٌ كَيِّسٌ، فَلْيَخْدُمْكَ قَالَ: فَخَدَمْتُهُ فِي الْحَضَرِ وَالسّفَرِ فَوَاللهِ مَا قَالَ لِي، لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ: لِمَ صَنَعْتَ هذَا هكَذَا وَلاَ لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ: لِمَ لَمْ تَصْنَعْ هذَا هكَذَا
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ یرا ہاتھ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا یا رسول اللہ!انس سمجھدار لڑکا ہے اور یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سفر میں بھی کی اور گھر پر بھی۔ واللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھ سے کسی چیز کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا اور نہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے میں نے نہ کیا ہو آپ نے یہ نہیں فرمایا: یہ کام تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1492]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 87 كتاب الديات: 27 باب من استعان عبدًا أو صبيًا»

780. باب ما سئل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شيئًا قط فقال لا، وكثرة عطائه
780. باب: ہر سوال کرنے والے کو دینے اور انکار نہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1493
1493 صحيح حديث جَابِرٍ رضي الله عنه، قَالَ: مَا سُئِل النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ قَطُّ، فَقَالَ: لاَ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کوئی چیز مانگی ہو اور آپ نے اس کے دینے سے انکار کیا ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1493]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 39 باب حسن الخلق والسخاء وما يكره من البخل»

حدیث نمبر: 1494
1494 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ قَدْ جَاءَ مَال الْبَحْرَيْنِ قَد أَعْطَيْتُكَ هكَذَا وَهكَذَا وَهكَذَا فَلَمْ يَجِى مَالُ الْبَحْرَيْنِ حَتَّى قبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ، فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا فَحَثَى لِي حَثْيَةً، فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُمِائَةٍ وَقَالَ: خُذْ مِثْلَيْهَا
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بحرین سے(جزیہ کا) مال آیا تو میں تمھیں اس طرح دونوں لپ بھر بھر کر دوں گا، لیکن بحرین سے مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک نہیں آیا، پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرا دیا کہ جس سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی وعدہ ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کا قرض ہو وہ ہمارے یہاں آجائے۔ چنانچہ میں حاضر ہوا، اور میں نے عرض کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ یہ باتیں فرمائی تھیں جسے سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی، پھر فرمایا کہ اس کے دگنا اور لے لو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1494]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 39 كتاب الكفالة: 3 باب من تكفل عن ميت دينًا»

781. باب رحمته صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلك
781. باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کا بیان جو بچوں اور گھر والوں پر تھی اور اس کی فضیلت
حدیث نمبر: 1495
1495 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى أَبِي سَيْفٍ الْقَيْنِ وَكَانَ ظِئْرًا لإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ فَقَبَّلَهُ وَشَمَّهُ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَيْهِ، بَعْدَ ذلِكَ، وَإِبْرَاهِيمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِفَانِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمنِ بْنُ عَوْفٍ رضي الله عنه: وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: يَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلاَ نَقُولُ إِلاَّ مَا يَرضى رَبُّنَا وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ، يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابو سیف لوہار کے ہاں گئے یہ ابراہیم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ) کو دودھ پلانے والی انا کے خاوند تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لیا اور پیار کیا اور سونگھا۔ پھر اس کے بعد ہم ان کے یہاں پھر گئے دیکھا کہ اس وقت ابراہیم رضی اللہ عنہ دم توڑ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ یا رسول اللہ! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لوگوں کی طرح بے صبری کرنے لگے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ بے صبری نہیں یہ تو رحمت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ روئے اور فرمایا آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے، پر زبان سے ہم کہیں گے وہی جو ہمارے پر وردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم! ہم تمھاری جدائی سے غمگین ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1495]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 44 باب قول النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إنا بك لمحزونون»

حدیث نمبر: 1496
1496 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تقَبِّلُونَ الصِّبْيَانَ فَمَا نُقَبِّلُهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَ أَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں، ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1496]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 18 باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته»

حدیث نمبر: 1497
1497 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَبَّلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ، وَعِنْدَهُ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيميُّ، جَالِسًا فَقَالَ الأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْولَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ لاَ يَرْحَمُ لاَ يُرْحَمُ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت اقرع رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جو مخلوق خدا پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1497]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 18 باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next