یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے عامر بن سعد سے خبر دی، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: " کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بیماری (طاعون ایک) عذاب ہے جو تم سے پہلے ایک امت کو ہوا تھا۔ پھر وہ زمین میں رہ گیا۔ کبھی چلا جاتا ہے، کبھی پھر آتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی کسی ملک میں سنے کہ وہاں طاعون ہے، تو وہ وہاں نہ جائے اور جب اس کے ملک میں طاعون نمودار ہو تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ درد یا بیماری ایک عذاب ہے، جس سے تم سے پہلی بعض امتوں کو دکھ پہنچایا گیا، پھر بعد میں زمین میں رہ گیا، سو کبھی آ جاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے تو جس نے کسی زمین میں اس کا پایا جانا سن لیا تو وہ وہاں نہ جائے اور جو ایسی زمین میں رہتا ہو، جہاں یہ وباء ہے تو اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے بالکل نہ نکلے۔“
ابن ابی عدی نے شعبہ سے انھوں نے حبیب (بن ابی ثابت اسدی) سے روایت کی، کہا: ہم مدینہ میں تھے تو مجھے خبر پہنچی کہ کو فہ میں طاعون پھیل گیا ہے تو عطاء بن یسار اور دوسرے لو گوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا تھا: جب تم کسی سر زمین میں ہوا ور وہاں طاعون پھیل جا ئے تو تم اس سر زمین سے مت نکلواور جب تم کو یہ خبر پہنچے کہ وہ کسی سر زمین میں پھیل گیا ہے تو تم اس میں مت جاؤ۔" کہا: میں نے پو چھا: (حدیث) کس سے روایت کی گئی؟ ان سب نے کہا: عامر بن سعد سے وہی یہ حدیث بیان کرتے تھے۔ کیا: تو میں ان کے ہاں پہنچا، ان کے (گھر کے) لوگوں نے کہا: وہ موجود نہیں، تو میں ان کے بھا ئی ابرا ہیم بن سعد سے ملا اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: میں اسامہ رضی اللہ عنہ کے پاس مو جو د تھا جب وہ (میرے والد) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کررہے تھے۔ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "یہ بیماری سزا اور عذاب ہے یاعذاب کا بقیہ حصہ ہے جس میں تم سے پہلے کے لو گوں کو مبتلا کیا گیا تھا۔تو جب یہ کسی سر زمین میں پھیل جائے اور تم وہیں ہو تو وہاں سے باہر مت نکلواور جب تمھیں خبر پہنچے کہ یہ کسی سر زمین میں ہے تو اس میں مت جاؤ۔"حبیب نے کہا: میں نے ابرا ہیم (بن سعد) سے کہا: کیا آپ نے (خود) اسامہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث سنا رہے تھے اور وہ اس کا انکا ر نہیں کر رہے تھے؟انھوں نے کہا: ہاں۔
حبیب بیان کرتے ہیں، ہم مدینہ میں تھے تو مجھے پتہ چلا کوفہ میں طاعون پڑ گیا ہے تو مجھے عطاء بن یسار اور دوسروں نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”جب تم کسی علاقہ میں ہو اور وہاں یہ پڑ جائے تو وہاں سے نہ نکلو اور جب تمہیں پتہ چل جائے کہ وہ کسی علاقہ میں ہے تو وہاں نہ جاؤ“ میں نے پوچھا، یہ روایت کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا یہ حدیث عامر بن سعد بیان کرتے ہیں، میں ان کے ہاں گیا تو بتایا گیا، وہ موجود نہیں ہے تو میں ان کے بھائی ابراہیم بن سعد کو ملا اور اس کے بارے میں اس سے پوچھا؟ اس نے کہا، میری موجودگی میں حضرت اسامہ ؓ نے حضرت سعد کو بتایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”یہ درد، رجز اور عذاب ہے، یا عذاب کا باقی حصہ ہے، جس سے تم سے پہلے لوگوں کو دکھ پہنچایا گیا، لہذا اگر یہ ایسے علاقہ میں ہو، جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے نکلو نہیں اور جب تمہیں پتہ چلے کہ وہ کسی زمین (علاقہ) میں ہے تو وہاں نہ جاؤ“ حبیب کہتے ہیں، میں نے ابراہیم سے کہا، کیا آپ نے اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ حدیث سناتے سنا ہے اور وہ انکار نہیں کر رہے تھے؟ اس نے کہا، ہاں۔
سفیان نے حبیب سے، انھوں نے ابرا ہیم بن سعد سے، انھوں نے حضرت سعد بن مالک، حضرت حزیمہ بن ثابت اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: " آگے شعبہ کی حدیث کے ہم معنی ہے۔
امام صاحب یہی روایت، ابراہیم بن سعد، سعد بن مالک، خزیمہ بن ثابت اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں۔
اعمش نے حبیب سے، انھوں نے ابرا ہیم بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی، کہا: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیٹھے ہو ئے احادیث بیان کررہے تھے۔تو ان دونوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس طرح ان سب کی حدیث ہے۔
ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں، اسامہ بن زید اور سعد رضی اللہ تعالی عنہما دونوں بیٹھے باہمی گفتگو کر رہے تھے تو دونوں نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
شیبانی نے حبیب بن ابی ثابت سے، انھوں نے ابرا ہیم بن سعد بن مالک سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب کی بیان کردہ حدیث کے مطا بق روایت کی۔
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبدالحمید بن عبدالرحمان بن زید بن خطاب سے، انھوں نے عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے۔ جب (تبوک کے مقام) سرغ پر پہنچے تو لشکر گاہوں کے امراء میں سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب نے آپ سے ملاقات کی۔اور یہ بتایا کہ شام میں وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے سامنے مہاجرین اوّلین کو بلاؤ۔ (مہاجرین اوّلین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو) میں نے ان کو بلایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ لیا اور ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ ایک اہم کام کے لئے نکلے ہوئے ہیں اس لئے ہم آپ کا لوٹنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بعض نے کہا کہ تمہارے ساتھ وہ لوگ ہیں جو اگلوں میں باقی رہ گئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں اور ہم ان کو وبائی ملک میں لے جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ انصار کے لوگوں کو بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو انہوں نے ان سے مشورہ لیا۔ انصار بھی مہاجرین کی چال چلے اور انہی کی طرح اختلاف کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ اب قریش کے بوڑھوں کو بلاؤ جو فتح مکہ سے پہلے یا (فتح کے ساتھ ہی) مسلمان ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو بلایا اور ان میں سے دو نے بھی اختلاف نہیں کیا، سب نے یہی کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیے اور ان کو وبا کے سامنے نہ کیجئے۔ آخر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ لوٹوں گا) تم بھی سوار ہو جاؤ۔ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تقدیر سے بھاگتے ہو؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا (یا اگر اور کوئی کہتا تو میں اس کو سزا دیتا) { اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ برا جانتے تھے ان کا خلاف کرنے کو } ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سرسبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اور تم اپنے اونٹوں کو سرسبز اور شاداب کنارے میں چراؤ تو اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو خشک اور خراب میں چراؤ تب بھی اللہ کی تقدیر سے چرایا (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس چرواہے پر کوئی الزام نہیں ہے بلکہ اس کا فعل قابل تعریف ہے کہ جانوروں کو آرام دیا ایسا ہی میں بھی اپنی رعیت کا چرانے والا ہوں تو جو ملک اچھا معلوم ہوتا ہے ادھر لے جاتا ہوں اور یہ کام تقدیر کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین تقدیر الٰہی ہے)؟ اتنے میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور وہ کسی کام کو گئے ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو اس مسئلہ کی دلیل موجود ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی ملک میں وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تمہارے ملک میں وبا پھیلے تو بھاگو بھی نہیں۔ کہا: اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔پھر (اگلےدن) روانہ ہوگئے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب شام جانے کے لیے نکلے، جب سرغ نامی جگہ پر پہنچے، انہیں لشکروں کے کمانڈر، ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی ملے اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا کر لاؤ تو میں نے ان کو بلایا، سو انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے، ان میں اختلاف ہو گیا، بعض نے کہا، آپ ایک مقصد کی خاطر نکلے ہیں، اس لیے ہم اس سے آپ کی واپسی مناسب خیال نہیں سمجھتے اور بعض نے کہا آپ کے ساتھ بہترین لوگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں، ہمارے خیال میں آپ انہیں، اس وبائی علاقہ میں نہ لے جائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، تم میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر انہوں نے کہا، میرے پاس انصار کو بلا لاؤ، میں نے ان کو ان کے پاس بلا لایا تو انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا، انہوں نے بھی مہاجرین کی راہ اپنائی اور ان کی طرح اختلاف کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر کہا، میرے پاس فتح مکہ کے وقت ہجرت کرنے والے قریش کے عمر رسیدہ اشخاص کو بلاؤ، سو میں نے ان کو بلایا ان میں سے دو شخصوں نے بھی اختلاف نہ کیا، سب نے کہا، ہم سمجھتے ہیں، آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور انہیں اس وبائی علاقہ میں نہ لے جائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں میں اعلان کروا دیا، میں کل صبح سواری پر سوار ہو جاؤں گا، اس لیے تم بھی سوار ہو جانا، اس پر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے کہا، کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے کاش! کسی اور نے یہ کہا ہوتا، اے ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر، ابو عبیدہ کی مخالفت کو پسند نہیں کرتے تھے، ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں، بتائیے، اگر آپ کے پاس اونٹ ہوں اور آپ ایسی وادی میں اتریں، جس کے دو کنارے ہوں، ایک کنارہ سرسبز و شاداب ہو اور دوسرا خشک، بنجر اور ویران، کیا ایسے نہیں ہے، اگر آپ سرسبز و شاداب کنارے میں چرائیں گے تو یہ اللہ کی تقدیر سے ہو گا اور اگر بنجر اور ویران کنارے سے چرائیں گے تو یہ بھی تقدیر الٰہی سے ہو گا؟ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ آ گئے، وہ اپنی کسی ضرورت کی بنا پر غائب تھے تو انہوں نے کہا، میرے پاس اس کے بارے میں یقینی علم ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جب تم اس کا کسی علاقہ میں پڑنا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب یہ ایسے علاقہ میں پڑ جائے، جہاں تم ہو تو اس سے بھاگتے ہوئے نہ نکلو۔“ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا، (کہ ان کی رائے حدیث کے مطابق تھی) پھر واپس روانہ ہو گئے۔
معمر نے ہمیں اسی سند کے ساتھ مالک کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور معمر کی حدیث میں یہ الفاظ زائد بیان کیے، کہا: اور انہوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے ان (ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ) سے یہ بھی کہا: آپ کا کیا حال ہے کہ اگر وہ (اونٹ) بنجر کنارے پر چرے اور سرسبز کنارے کو چھوڑ دے تو کیا آپ اسے اس کے عجز اور غلطی پر محمول کریں گے؟انھوں نے کہا: ہاں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر چلیں۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: وہ چل کر مدینہ آئے اور کہا: ان شاء اللہ! یہی (کجاوے) کھولنے کی، یاکہا: یہی اترنے کی جگہ ہے۔
امام صاحب کے تین اور اساتذہ یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ اضافہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے یہ بھی کہا، بتائیے، اگر وہ سرسبز و شاداب جگہ کو چھوڑ کر بے آب و گیاہ، بنجر علاقہ میں مویشی چرائے، کیا تم اسے عاجز و بے بس قرار دو گے؟ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہاں، کہا تو تب چلئے تو حضرت عمر روانہ ہو گئے، حتی کہ مدینہ پہنچ گئے اور کہنے لگے، یہی محل اور موقع ہے، ان شاءاللہ۔