حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا۔ پھر قربانی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا ہو تو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو تو اللہ کے نام پر ذبح کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1280]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 23 باب كلام الإمام والناس في خطبة العيد»
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ میرے ماموں ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ!میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے ہی ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد (اس کی قربانی) کسی اور کے لئے جائز نہیں ہو گی پھر فرمایا جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کر لیتا ہے وہ صرف اپنے کھانے کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اور جو عید کی نماز کے بعد قربانی کرے اسی کی قربانی پوری ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پا لیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1281]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 73 كتاب الأضاحي: 8 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لأبي بردة ضح بالجذع من المعز»
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز سے پہلے قربانی کردے اسے دوبارہ کرنی چاہیے۔ اس پر ایک شخص (ابوبردہ) نے کھڑے ہوکر کہا کہ یہ ایسا دن ہے جس میں گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کی تنگی کا حال بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچا سمجھا اس شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو گوشت کی دوبکریوں سے بھی مجھے زیادہ پیاری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے اجازت دے دی کہ وہی قربانی کرے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1282]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 5 باب الأكل يوم النحر»
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بکریاں ان کے حوالے کی تھیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنہ م میں ان کو تقسیم کر دیں، ایک بکری کا بچہ باقی رہ گیا۔ جب اس کا ذکر انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تو قربانی کر لے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1283]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 40 كتاب الوكالة: 1 باب وكالة الشريكِ الشريكَ في القسمة وغيرها»
668. باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توكيل، والتسمية والتكبير
668. باب: قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا مستحب ہے اسی طرح بوقت ذبح بسم اللہ واللہ اکبر کہنا
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی۔ انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ بسم اللہ اور اللہ اکبر پڑھا اور اپنا پاؤں ان کی گردن کے اوپر رکھ کر ذبح کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1284]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأضاحي: 14 باب التكبير عند الذبح»
669. باب جواز الذبح بكل ما أنهر الدم إِلا السن والظفر وسائر العظام
669. باب: ذبح ہر خون بہانے والی چیز سے درست ہے سوائے دانت، ناخن اور ہڈی کے
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ!کل ہمارا مقابلہ دشمن سے ہو گا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جلدی کر لو یا (اس کے بجائے)”ارن“ کہا یعنی جلدی کر لو جو آلہ خون بہادے اور ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ۔ البتہ دانت اور ناخن نہ ہونا چاہئے اور اس کی وجہ بھی بتا دوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ (رافع کہتے ہیں)ہمیں غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں، ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا تو ایک صاحب نے تیر مار کر اسے گرا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لئے اگر ان میں سے کوئی تمہارے قابو سے باہر ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1285]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 72 كتاب الذبائح والصيد: 23 باب ما ندّ من البهائم فهو بمنزلة الوحش»
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام ذوالحلیفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لوگوں کو بھوک لگی۔ ادھر (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملی تھیں۔ حضرت رافع نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے پیچھے کے لوگوں میں تھے۔ لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم سے پہلے ہی) ذبح کرکے ہانڈیاں چڑھا دی گئیں۔ لیکن بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ ہانڈیاں اوندھا دی گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھا۔ ایک اونٹ اس میں سے بھاگ گیا تو لوگ اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگے، لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ قوم کے پاس گھوڑے کم تھے۔ ایک صحابی تیر لے کر اونٹ کی طرف جھپٹے۔ اللہ نے اس(اونٹ) کو ٹھہرا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے۔ اس لیے ان جانوروں میں سے بھی اگر کوئی تمھیں عاجز کر دے تو اس کے ساتھ تم ایسا ہی معاملہ کیا کرو۔ پھر میں نے عرض کی کہ کل دشمن کے حملے کاخوف ہے، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں۔ (تلواروں سے ذبح کریں تو ان کے خراب ہونے کا ڈر ہے جب کہ جنگ سامنے ہے) کیا ہم بانس کے کھپچی سے ذبح کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چیز بھی خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ تعالیٰ کانام بھی لیا گیا ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سوائے دانت اور ناخن کے، اس کی وجہ میں تمھیں بتاتا ہوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1286]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 47 كتاب الشركة: 3 باب قسمة الغنم»
670. باب ما كان من النهي عن أكل لحوم الأضاحي بعد ثلاث في أول الإسلام وبيان نسخه وإِباحته إِلى من شاء
670. باب: ابتدائے اسلام میں تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے ممانعت تھی اور اس کے منسوخ ہونے کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قربانی کاگوشت تین دن تک کھاؤ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمامنیٰ سے کوچ کرتے وقت روٹی زیتون کے تیل سے کھاتے کیونکہ وہ قربانی کے گوشت سے (تین دن کے بعد) پرہیز کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1287]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 73 كتاب الأضاحي: 16 باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ مدینہ میں ہم قربانی کے گوشت میں نمک لگا کر رکھ دیتے تھے اور پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی پیش کرتے تھے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھایا کرو۔ یہ حکم ضروری نہیں تھا بلکہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ ہم قربانی کا گوشت (ان لوگوں کو بھی جن کے یہاں قربانی نہ ہوئی ہو) کھلائیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1288]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 73 كتاب الأضاحي: 16 باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها»
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم اپنی قربانی کا گوشت منیٰ کے بعد تین دن سے زیادہ نہیں کھاتے تھے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت دے دی اور فرمایا کہ کھاؤ بھی اور توشہ کے طور پر ساتھ بھی لے جاؤ، چنانچہ ہم نے کھایا اور ساتھ بھی لائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأضاحي/حدیث: 1289]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 124 باب ما يأكل من البدن وما يتصدق»