ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی (لاحق بن ضمیرہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے غنیمت حاصل کرنے کے لیے، ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے ناموری کے لئے، ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے تاکہ اس کی بہادری کی دھاک بیٹھ جائے تو ان میں سے اللہ کے راستے میں کون لڑتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس ارادہ سے جنگ میں شریک ہوا کہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رہے، صرف وہی اللہ کے راستہ میں لڑتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1243]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 15 باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا»
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سراسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے کو سر بلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1244]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 45 باب من سأل وهو قائم عالمًا جالسًا»
651. باب قوله صلی اللہ علیہ وسلم إِنما الأعمال بالنية وأنه يدخل فيه الغزو وغيره من الأعمال
651. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’ہر عمل کا ثواب نیت سے ہوتا ہے‘‘ میں جہاد اور دوسرے اعمال شامل ہیں
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور انسان کو وہی ملے گا ہے جس کی وہ نیت کرے گا۔پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہو گی تو وہ واقعی وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی اورجس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کی نیت سے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے ارادہ سے ہو، اس کی ہجرت اسی کے لئے ہو گی جس کے لئے اس نے ہجرت کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1245]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 83 كتاب الأيمان والنذور: 23 باب النية في الأيمان»
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے(یہ انس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں،جو حضرت عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں، اس عرصے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، جب بیدار ہوئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ ام حرام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئے دریا کے بیچ میں سوار اس طرح جا رہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں، یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں۔ (یہ شک اسحاق راوی کو تھا۔)ام حرام رضی اللہ عنہ کہتی ہیںکہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!آپصلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے، اس مرتبہ بھی آپ جب بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!کس بات پر آپ مسکرا رہے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لئے جا رہے ہیں پہلے کی طرح، اس مرتبہ بھی فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے میرے لئے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہی میں سے کر دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہو گی (جو بحری راستے سے جہاد کرے گی) چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ام حرام رضی اللہ عنہ نے بحری سفر کیا، پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرا دیا اور اسی حادثہ میں ان کی وفات ہو گئی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1246]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 3 باب الدعاء بالجهاد والشهادة للرجل والنساء»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص کہیں جارہا تھا۔ راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی، پس اسے راستے سے دور کردیا۔ اللہ تعالیٰ (صرف اسی بات پر) راضی ہوگیا اور اس کی بخشش کردی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہداء پانچ قسم کے ہوتے ہیں، طاعون میں مرنے والے، پیٹ کے عارضے (ہیضے وغیرہ) میں مرنے والے، اور ڈوب کر مرنے والے، اور جو دیوار وغیرہ کسی بھی چیز سے دب کر مر جائے اور خدا کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) شہید ہونے والے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1247]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 32 باب فضل التهجير إلى الظهر»
حدیث نمبر: 1248
1248 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون کی موت ہر مسلمان کے لئے شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1248]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 30 باب الشهادة سبع سوى القتل»
654. باب قوله صلی اللہ علیہ وسلم لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خالفهم
654. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اس کی مخالفت کرنے والا اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ غالب رہیں گے ٗ یہاں تک کہ قیامت یا موت آئے گی اس وقت بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1249]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 28 باب حدثني محمد بن المثنى»
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ٗ آپ فرما رہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا ٗ انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر رہیں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1250]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 28 باب حدثني محمد بن المثنى»
655. باب السفر قطعة من العذاب واستحباب تعجيل المسافر إِلى أهله بعد قضاء شغله
655. باب: سفر ایک عذاب ہے۔ اس لیے مسافر کو اپنے کام سے فارغ ہوتے ہی فوراً گھر لوٹنا چاہیے
حدیث نمبر: 1251
1251 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَنَوْمَهُ، فَإِذَا قَضى نَهْمَتَهُ فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو کھانے پینے اور سونے (ہر ایک چیز) سے روک دیتا ہے، اس لیے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کر چکے تو فوراً گھر واپس آ جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1251]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 19 باب السفر قطعة من العذاب»
656. باب كراهة الطروق وهو الدخول ليلاً لمن ورد من سفر
656. باب: سفر سے واپسی پر رات گئے گھر آنے کی کراہت
حدیث نمبر: 1252
1252 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَطْرُقُ أَهْلَهُ، كَانَ لاَ يَدْخلُ إِلاَّ غُدْوَةً أَوْ عَشِيَّةً
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سفر سے) رات میں گھر نہیں پہنچتے تھے یا صبح کے وقت پہنچ جاتے یا دوپہر (بعد زوال سے لے کر غروب آفتاب تک کسی بھی وقت تشریف لاتے)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1252]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 15 باب الدخول بالعشى»