ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی (لاحق بن ضمیرہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے غنیمت حاصل کرنے کے لیے، ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے ناموری کے لئے، ایک شخص جنگ میں شرکت کرتا ہے تاکہ اس کی بہادری کی دھاک بیٹھ جائے تو ان میں سے اللہ کے راستے میں کون لڑتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس ارادہ سے جنگ میں شریک ہوا کہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رہے، صرف وہی اللہ کے راستہ میں لڑتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1243]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 15 باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا»
وضاحت: مقصد یہ ہے کہ اصل چیز خلوص ہے۔ اگر یہ ہے تو سب کچھ ہے۔ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ قیامت کے دن کتنے سخی، کتنے قاری اور کتنے مجاہد دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ یہ وہ ہوں گے جن کا مقصد صرف ریا اور نمود تھا۔ اس لیے ان کو سیدھا دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (راز)