حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ ایک غزوہ کے موقع پر اپنے اونٹ پر سوار آرہے تھے، اونٹ تھک گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا، پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ کے ہاتھ پر بیچ دیا، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ پھر جب ہم مدینہ پہنچ گئے تو میں نے اونٹ آپ کو پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لئے بھیجا۔ میں حاضر ہواتو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہاتھا، اپنا اونٹ لے جاؤ، یہ تمہارا ہی مال ہے اور قیمت واپس نہیں لی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1029]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 54 كتاب الشروط: 4 باب إذا اشترط البائع ظهر الدابة إلى مكان مسمى جاز»
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (جنگ تبوک) میں شریک تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے آ کر میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنے پانی لادنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا۔ چونکہ وہ تھک چکا تھا، اس لئے دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ جابر! تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تھک گیا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپؐ پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لئے دعا کی، پھر تو وہ برابر دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا۔ پھر آپؐ نے دریافت فرمایا، اپنے اونٹ کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ اب اچھا ہے، آپؐ کی برکت سے ایسا ہو گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: پھر کیا اسے بیچو گے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں شرمندہ ہو گیا، کیونکہ ہمارے پاس پانی لانے کو اس کے سوا اور کوئی اونٹ نہیں رہا تھا۔ مگر میں نے عرض کیا، جی ہاں! آپؐ نے فرمایا: پھر بیچ دے۔ چنانچہ میں نے وہ اونٹ آپؐ کو بیچ دیا اور یہ طے پایا کہ مدینہ تک میں اسی پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے۔ میں نے آپؐ سے (آگے بڑھ کر اپنے گھر جانے کی) اجازت چاہی تو آپؐ نے اجازت عنایت فرما دی۔ اس لئے میں سب سے پہلے مدینہ پہنچ آیا۔ جب ماموں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے اونٹ کے متعلق پوچھا۔ جو معاملہ میں کر چکا تھا اس کی انہیں اطلاع دی تو انہوں نے مجھے برا بھلا کہا۔ (ایک اونٹ تھا تیرے پاس وہ بھی بیچ ڈالا اب پانی کس پر لائے گا) جب میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تھی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا تھا بیوہ سے اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی، وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے۔ (کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بھی ابھی کنوارے تھے) میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے باپ کی وفات ہو گئی ہے یا (یہ کہا کہ) وہ (احد میں) شہید ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں۔ اس لئے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ انہیں جیسی کسی لڑکی کو بیاہ کے لاؤں، جو نہ انہیں ادب سکھا سکے نہ ان کی نگرانی کر سکے۔ اس لئے میں نے بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی نگرانی کرے اور انہیں ادب سکھائے۔ انہوں نے بیان کیا، کہا پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صبح کے وقت میں اسی اونٹ پر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس اونٹ کی قیمت عطا فرمائی اور پھر وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1030]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 113 باب استئذان الرجل الإمام»
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ خریدا تھا۔ دو اوقیہ اور ایک درہم یا (راوی کو شبہ ہے کہ دو اوقیہ) دو درہم میں۔ جب آپ مقام صرار پر پہنچے تو آپ نے حکم دیا اور گائے ذبح کی گئی اور لوگوں نے اس کا گوشت کھایا۔ پھر جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو مجھے حکم دیا کہ پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھوں، اس کے بعد مجھے میرے اونٹ کی قیمت وزن کر کے عنایت فرمائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1031]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 199 باب الطعام عند القدوم»
521. باب من استسلف شيئًا فقضى خيرًا منه وخيركم أحسنكم قضاء
521. باب: جانوروں کا قرض لے کر اس سے بہتر دینا مستحب ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے(اپنے قرض کا) تقاضا کرنے آیا اور سخت سست کہنے لگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ م غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ کہنے سننے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہ م نے عرض کی: یا رسول اللہ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔(لیکن اس عمر کا نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو، کیونکہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کر دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1032]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 40 كتاب الوكالة: 6 باب الوكالة في قضاء الديون»
522. باب الرهن وجوازه في الحضر كالسفر
522. باب: گروی رکھنا سفر اور حضر دونوں میں جائز ہے
حدیث نمبر: 1033
1033 صحيح حديث عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى طَعَامًا مِنْ يَهُودِيٍّ إِلَى أَجَلٍ، وَرَهَنَهُ دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ایک مدت مقرر کرکے ادھار خریدا اور اپنی لوہے کی ایک زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1033]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 14 باب شراء النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالنسيئة»
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، تولوگ کھجور میں دو اور تین سال تک کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایت فرمائی کہ جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہے اسے مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے ٹھہرا کر کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1034]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 35 كتاب السلم: 2 باب السلم في وزن معلوم»
524. باب النهي عن الحلف في البيع
524. باب: بیع میں قسم کھانے کی ممانعت
حدیث نمبر: 1035
1035 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الْحَلِفُ مَنْفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ، مَمْحَقَةٌ لِلْبَرَكَةِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ (سامان بیچتے وقت دکان دار کے) قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے، لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1035]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 26 باب يمحق الله الربا ويربى الصدقات والله لا يحب كل كفار أثيم»
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو، لیکن جب حدود مقرر ہو گئیں اور راستے بدل دیے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1036]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 36 كتاب الشفعة: 1 باب الشفعة في ما لم يقسم فإذا وقعت الحدود فلا شفعة»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے، پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (کہا کرتے تھے) یہ کیا بات ہے کہ میں تمھیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں، قسم اللہ کی! میں تو اس حدیث کا تمھارے سامنے برابر اعلان کرتا ہی رہوں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1037]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 46 كتاب المظالم: 20 باب لا يمنع جار جاره أن يغرز خشبه في جداره»
527. باب تحريم الظلم وغصب الأرض وغيرها
527. باب: ظلم کرنا اور دوسرے کی زمین چھیننا حرام ہے
حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کا ارویٰ بنت ابی اوس سے ایک (زمین کے) بارے میں جھگڑا ہوا۔ جس کے متعلق ارویٰ کہتی تھی کہ سعید نے میری زمین چھین لی ہے۔ یہ مقدمہ مروان خلیفہ کے یہاں فیصلہ کیلئے گیا جو مدینہ کا حاکم تھا۔ سعید رضی اللہ عنہ نے کہا بھلا کیا میں ان کا حق دبا لوں گا میں گواہ دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے کسی کی دبا لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساقاة/حدیث: 1038]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 2 باب ما جاء في سبع أرضين»