965 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهى عَنِ الْمُلاَمَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے منع فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 965]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 63 باب بيع المنابذة»
حدیث نمبر: 966
966 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: يُنْهى عَنْ صِيَامَيْنِ وَبَيْعَتَيْنِ؛ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ، وَالْمُلاَمَسَةِ وَالْمُنَابَذَةِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے اور دو قسم کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے عیدالفطر اور عیدالاضحی کے روزے سے اور ملا مست اور منابذت کے ساتھ خرید و فروخت کرنے سے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 966]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 30 كتاب الصوم: 67 باب الصوم يوم النحر»
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے اور دو طرح کی خرید و فروخت سے منع فرمایا خرید و فروخت میں ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا ملامسہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص (خریدار) دوسرے (بیچنے والے) کے کپڑے کو رات یا دن میں کسی بھی وقت بس چھو دیتا (اور دیکھے بغیر صرف چھونے سے بیع ہو جاتی) صرف چھونا ہی کافی تھا کھول کر دیکھا نہیں جاتا تھا منابذہ کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی ملکیت کا کپڑا دوسرے کی طرف پھینکتا اور دوسرا اپنا کپڑا پھینکتا اور بغیر دیکھے اور بغیر باہمی رضا مندی کے صرف اسی سے بیع منعقد ہو جاتی اور دو کپڑے (جنہیں پہننے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ایک) اشتمال صماء ہے صماء کی صورت یہ تھی کہ اپنا کپڑا (ایک چادر) اپنے ایک شانے پر اس طرح ڈالا جاتا کہ ایک کنارہ سے (شرمگاہ) کھل جاتی اور کوئی دوسرا کپڑا وہاں نہیں ہوتا تھا دوسرے پہناوے کا طریقہ یہ تھا کہ بیٹھ کر اپنے ایک کپڑے سے کمر اور پنڈلی باندھ لیتے تھے اور شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 967]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 20 باب اشتمال الصماء»
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا۔ اس بیع کا طریقہ جاہلیت میں رائج تھا۔ ایک شخص ایک اونٹ یا اونٹنی خریدتا اور قیمت دینے کی میعاد یہ مقرر کرتا کہ ایک اونٹنی جنے پھر اس کے پیٹ کی اونٹنی بڑی ہو کر جنے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 968]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 61 باب بيع الغرر وحبل الحبلة»
489. باب تحريم بيع الرجل على بيع أخيه وسومه على سومه وتحريم النجش وتحريم التصرية
489. باب: اپنے بھائی کے نرخ پر نرخ نہ کرے نہ اس کی بیع پر زائد قیمت لگائے اور دھوکہ دینا اور تھن میں دودھ روکے رکھنا حرام ہے
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے بھائی کی خرید و فروخت میں دخل اندازی نہ کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 969]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 58 باب لا يبيع على بيع أخيه ولا يسوم على سوم أخيه حتى يأذن له أو يترك»
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تجارتی) قافلوں کی پیشوائی (ان کا سامان شہر پہنچنے سے پہلے ہی خرید لینے کی غرض سے) نہ کرو ایک شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور کوئی نجش نہ کرے اور کوئی شہری بدوی کا مال نہ بیچے اور بکری کے تھن میں دودھ نہ روکے لیکن اگر کوئی اس (آخری) صورت میں جانور خرید لے تو اسے دوہنے کے بعد دونوں طرح کے اختیارات ہیں اگر وہ اس بیع پر راضی ہے تو جانور کو روک سکتا ہے اور اگر وہ راضی نہیں تو ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دے کر اسے واپس کر دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 970]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 64 باب النهي للبائع أن لا يحفِّل الإبل والبقر وكل محفَّلة»
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تجارتی قافلوں کی) پیشوائی سے منع فرمایا تھا اور اس سے بھی کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان تجارت بیچے اور اس سے بھی کہ کوئی عورت اپنی (دینی یا نسبی) بہن کے طلاق کی شرط لگائے اور اس سے کہ کوئی اپنے کسی بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے اسی طرح آپ نے نجش اور تصریہ سے بھی منع فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 971]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 54 كتاب الشروط: 11 باب الشروط في الطلاق»
490. باب تحريم تلقى الجلب
490. باب: آگے بڑھ کر تاجروں سے ملنے کی ممانعت
حدیث نمبر: 972
972 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: مَنِ اشْتَرَى شَاةً مُحَفَّلَةً فَرَدَّهَا فَلْيَرُدَّ مَعَهَا صَاعًا؛ وَنَهى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُلَقَّى الْبُيُوعُ
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو شخص مصرا بکری خریدے اور اسے واپس کرنا چاہے تو (اصل مالک کو) اس کے ساتھ ایک صاع بھی دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ والوں سے (جو مال بیچنے کو لائیں) آگے بڑھ کر خریدنے سے منع فرمایا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 972]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 64 باب النهي للبائع أن لا يحفِّل الإبل والبقر والغنم وكل محفَّلة»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تجارتی) قافلوں سے آگے جا کر نہ ملا کرو (ان کو منڈی میں آنے دو) اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے (راوی کہتے ہیں) کہ اس پر میں نے سیّدنا ابن عباس سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے مطلب کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ دلال نہ بنے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 973]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 68 باب هل يبيع حاضر لباد بغير أجر وهل يُعينُهُ أو ينصحه»
حدیث نمبر: 974
974 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالَكٍ رضي الله عنه، قَالَ: نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے روکا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت بیچے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب البيوع/حدیث: 974]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 70 باب لا يبيع حاضر لباد بالسمسرة»