سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی مشترک غلام میں اپنے حصے کو آزاد کر دیا اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ غلام کی پوری قیمت ادا ہو سکے تو اس کی قیمت انصاف کے ساتھ لگائی جائے گی اور باقی حصہ داروں کو ان کے حصے کی قیمت (اسی کے مال سے) دے کر غلام کو اسی کی طرف سے آزاد کر دیا جائے گا ورنہ غلام کا جو حصہ آزاد ہو چکا وہ ہو چکا (باقی حصوں کی آزادی کے لئے غلام کو خود کوشش کر کے قیمت ادا کرنی ہو گی)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب العتق/حدیث: 958]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 4 باب إذا أعتق عبدا بين اثنين»
482. باب ذكر سعاية العبد
482. باب: غلام کے باقی ماندہ حصے کی قیمت مقرر کرنے کا بیان
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مال سے غلام کو پوری آزادی دلا دے لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے پھر غلام سے کہا جائے کہ (اپنی آزادی کی) کوشش میں وہ باقی حصہ کی قیمت خود کما کر ادا کر لے لیکن غلام پر اس کے لئے کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب العتق/حدیث: 959]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 47 كتاب الشركة: 5 باب تقويم الأشياء بين الشركاء بقيمة عدل»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سیّدہ بریرہ رضی اللہ عنہ ن کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں مدد لینے آئیں ابھی انہوں نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ تو اپنے مالکوں کے پاس جا اگر وہ یہ پسند کریں کہ تیرے معاملہ مکاتبت کی پوری رقم میں ادا کر دوں اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہو تو میں ایسا کر سکتی ہوں سیّدہ بریرہ نے یہ صورت اپنے مالکوں کے سامنے رکھی لیکن انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر وہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے یہ نیک کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اختیار ہے لیکن تمہاری ولاء تو ہمارے ہی ساتھ رہے گی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ تو خرید کر انہیں آزاد کر دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کر دے راوی نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں پس جو بھی کوئی ایسی شرط لگائے جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ ان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا خواہ وہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگا لے اللہ تعالیٰ کی شرط ہی سب سے زیادہ معقول اور مضبوط ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب العتق/حدیث: 960]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 50 كتاب المكاتب: 2 باب ما يجوز من شروط المكاتب»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ بریرہ سے دین کے تین مسئلے معلوم ہو گئے اول یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا اور پھر ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے نکاح میں رہیں ورنہ الگ ہو جائیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں کے بارے میں) فرمایا کہ ولا اسی سے قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے اور ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی میں گوشت پکایا جا رہا تھا پھر کھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو ہانڈی میں گوشت پکتا دیکھا ہے؟ عرض کیا گیا کہ جی ہاں لیکن وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے بریرہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب العتق/حدیث: 961]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 68 كتاب الطلاق: 14 باب لا يكون بيع الأمة طلاقا»
484. باب النهى عن بيع الولاء وهبته
484. باب: ولاء کا بیچنا یا ہبہ کرنا درست نہیں
حدیث نمبر: 962
962 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَلاَءِ وَعَنْ هِبَتِهِ
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب العتق/حدیث: 962]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 10 باب بيع الولاء وهبته»
485. باب تحريم تولى العتيق غير مواليه
485. باب: اپنے آزاد کرنے والے کے سوا اور کسی کو ’’مولا‘‘ نہیں بنا سکتا
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اینٹ سے بنے ہوئے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا آپ تلوار لئے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا آپ نے فرمایا واللہ ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوائے اس صحیفہ کے پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی اللہ اس کی کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنی مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنے والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب العتق/حدیث: 963]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 96 كتاب الاعتصام: 5 باب ما يكره من التعمق والتنازع في العلم»
486. باب فضل العتق
486. باب: بردہ آزاد کرنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 964
964 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَءًا مُسْلِمًا اسْتَنْقَذَاللهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے بھی کبھی کسی مسلمان (غلام) کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے جسم کے ہر عضو کی آزادی کے بدلے اس شخص کے جسم کے بھی ایک ایک عضو کو دوزخ سے آزاد کرے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب العتق/حدیث: 964]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 1 باب ما جاء في العتق وفضله»