سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں پردہ کے حکم کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں سیّدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا موقعہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح مدینہ منورہ میں کیا تھا دن چڑھنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کھانے کی دعوت کی تھی آپ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بعض اور صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے اس وقت تک دوسرے لوگ (کھانے سے فارغ ہو کر) جا چکے تھے آخر آپ بھی کھڑے ہو گئے اور چلتے رہے میں بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرے پر پہنچے پھر آپ نے خیال کیا کہ وہ لوگ (بھی جو کھانے کے بعد گھر میں بیٹھے رہ گئے تھے) جا چکے ہوں گے (اس لئے آپ واپس تشریف لائے) میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا لیکن وہ لوگ اب بھی اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے آپ پھر واپس آ گئے میں بھی آپ کے ساتھ دوبارہ واپس آیا آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرہ پر پہنچے پھر آپ وہاں سے واپس ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا اب وہ لوگ جا چکے تھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکا لیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 904]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 59 باب قول الله تعالى (فإذا طعمتم فانتشروا»
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا آپ جب ام سلیم کے گھر کی طرف سے گذرتے تو ان کے پاس جاتے ان کو سلام کرتے (وہ آپ کی رضاعی خالہ ہوتی تھیں) پھر سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے آپ نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا تو ام سلیم (میری ماں) مجھ سے کہنے لگی اس وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ تحفہ بھیجیں تو اچھا ہے میں نے کہا مناسب ہے انہوں نے کھجور اور گھی اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور میرے ہاتھ میں دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھجوایا میں لے کر آپ کے پاس چلا جب پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ رکھ دے اور جا کر فلاں فلاں لوگوں کو بلا لا آپ نے ان کا نام لیا اور جو کوئی بھی تجھ کو راستے میں ملے اس کو بلا لے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ کے حکم کے موافق لوگوں کو دعوت دینے گیا لوٹ کر جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ زبان سے کہا (برکت کی دعا فرمائی) پھر دس دس آدمیوں کو کھانے کے لئے بلانا شروع کیا آپ ان سے فرماتے جاتے تھے اللہ کا نام لو اور ہر ایک آدمی اپنے آگے سے کھائے (رکابی کے بیچ میں ہاتھ نہ ڈالے) یہاں تک کہ سب لوگ کھا کر گھر کے باہر چل دئیے تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھ کو ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا (اس خیال سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی) آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دوسری بیویوں کے حجروں پر گئے میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا پھر راستے میں میں نے آپ سے کہا کہ وہ تین آدمی بھی چلے گئے ہیں اس وقت آپ لوٹے اور (سیدہ زینب کے حجرے میں) آئے میں بھی حجرے ہی میں تھا لیکن آپ نے میرے اور اپنے بیچ میں پردہ ڈال لیا آپ سورہ احزاب کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:”مسلمانو! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لیے تم کو اندر آنے کی اجازت دی جائے، اس وقت جاؤ۔ وہ بھی ایسا ٹھیک وقت دیکھ کر کہ کھانا پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ البتہ جب بلائے جاؤ تو اندر جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی چل دو۔ باتوں میں لگ کر وہاں بیٹھے نہ رہا کرو۔ ایسا کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی تھی اس کو تم سے شرم آتی تھی (کہ تم سے کہے کہ چلے جاؤ) اور اللہ تعالیٰ حق بات میں نہیں شرماتا۔“ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دس برس تک متواتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 905]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 64 باب الهدية للعروس»
سیّدنا عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت ولیمہ پر بلایا جائے تو اسے آنا چاہیے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 906]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 71 باب حق إجابة الوليمة والدعوة»
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے جس میں صرف مالداروں کو خصوصی دعوت دی جائے اور محتاجوں کو نہ کھلایا جائے اور جس نے ولیمہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 907]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 72 باب من ترك الدعوة فقد عصى الله ورسوله»
455. باب لا تحل المطلقة ثلاثا لمطلقها حتى تنكح زوجا غيره ويطأها ثم يفارقها وتنقضى عدتها
455. باب: طلاق ثلاثہ کے بعد عورت دوسرے نکاح کے بغیر پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی اور دوسرا شوہر اس سے جماع کرے اور طلاق کے بعد وہ عورت عدت پوری کرے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے نکاح میں تھی پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی قطعی طلاق دے دی پھر میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے شادی کر لی لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک اس سے شادی نہیں کر سکتی جب تک تو عبدالرحمن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں اس وقت سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور سیّدنا خالد بن سعید بن عاص دروازے پر اپنے لئے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کر رہے تھے انہوں نے کہا ابوبکر کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 908]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 52 كتاب الشهادات: 3 باب شهادة المختبى»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی ان کی بیوی نے دوسری شادی کر لی پھر دوسرے شوہر نے بھی (ہم بستری سے پہلے) انہیں طلاق دے دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا پہلا شوہر اب ان کے لئے حلال ہے (کہ ان سے دوبارہ شادی کر لیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں یہاں تک کہ وہ یعنی شوہر ثانی اس کا مزہ چکھے جیسا کہ پہلے نے مزہ چکھا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 909]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 68 كتاب الطلاق: 4 باب من أجاز طلاق الثلاث»
سیّدنا ابن عباس نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس ہم بستری کے لئے جب آئے تو یہ دعا پڑھے میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ شیطان کو مجھ سے دور رکھ اور شیطان کو اس چیز سے بھی دور رکھ جو (اولاد) ہمیں تو عطا کرے پھر اس عرصہ میں ان کے لئے کوئی اولاد نصیب ہو تو اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 910]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 66 باب ما يقول الرجل إذا أتى أهله»
457. باب جواز جماعه امرأته في قبلها من قدامها ومن ورائها من غير تعرض للدبر
457. باب: دبر سے بچتے ہوئے آگے اور پیچھے سے قبل جماع کرنے کا جواز
حدیث نمبر: 911
911 صحيح حديث جَابِرٍ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَتِ الْيَهُودُ تَقُولُ: إِذَا جَامَعَهَا مِنْ وَرَائِهَا جَاءَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ فَنَزَلَتْ (نِسَاؤكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ)
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہودی کہتے تھے کہ اگر عورت سے ہم بستری کے لئے کوئی پیچھے سے آئے گا تو بچہ بھینگا پیدا ہو گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔ (البقرہ۲۲۳)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 911]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب التفسير: 2 سورة البقرة: 39 باب (نساؤكم حرث لكم) الآية»
458. باب تحريم امتناعها من فراش زوجها
458. باب: بیوی کے لیے جائز نہیں کہ شوہر کو جماع سے روکے
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر عورت اپنے شوہر سے ناراضگی کی وجہ سے اس کے بستر سے الگ تھلگ رات گذارے تو فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت بھیجتے ہیں جب تک وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آ جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 912]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 85 باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها»
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنی المصطلق کے لئے نکلے اس غزوہ میں ہمیں کچھ عرب کے قیدی ملے (جن میں عورتیں بھی تھیں) پھر اس سفر میں ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور بے عورت رہنا ہم پر مشکل ہو گیا دوسری طرف ہم عزل کرنا چاہتے تھے (اس خوف سے کہ بچہ نہ پیدا ہو) ہمارا ارادہ یہی تھا کہ عزل کر لیں لیکن پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں آپ سے پوچھے بغیر عزل کرنا مناسب نہ ہو گا چنانچہ ہم نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم عزل نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ قیامت تک جو جان پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 913]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 32 باب غزوة بني المصطلق»