یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے روایت کی، کہا: مجھے ابو بکر بن حفص نے سالم سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عطارد کے خاندان والوں میں سے ایک آدمی (کےکندھوں) پر دیباج یا ریشم کی ایک قبا دیکھی تو ا نھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: کتنا اچھا ہو اگر آپ اس کو خرید لیں! آپ نے فرمایا: "اس کو صرف وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔"پھر (بعد میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی حلہ ہدیہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حلہ میرے پاس بھیج دیا، کہا: میں نے عرض کی: آپ نے وہ حلہ میرے پاس بھیج دیا ہے۔جبکہ میں اس کے متعلق آپ سے سن چکا ہوں، آپ نے اس کے بارے میں جو فرمایا تھا سوفرمایا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اسے تمھارے پا س صرف اس لئے بھیجاہے کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطارد کے خاندان کے کسی آدمی کے پاس، دیباج یا ریشم کی قبا دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے کاش! آپ اسے خرید لیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو صرف وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دھاری دار ریشمی جوڑا تحفہ میں ملا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے (عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھیج دیا، میں نے کہا: آپ نے یہ میری طرف بھیج دیا ہے، حالانکہ میں اس کے بارے میں جو کچھ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، آپ سے سن چکا ہوں“ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تو تجھے صرف اس لیے بھیجا ہے، تاکہ تم اس سے فائدہ اٹھا لو۔“
روح نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو بکر بن حفص نے سالم بن عبداللہ بن عمر سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے آل عطارد کے ایک آدمی (کے کندھوں) پر (بیچنے کےلیے ایک حلہ) دیکھا، جس طرح یحییٰ بن سعید کی ایک حدیث ہے۔، مگر انھوں نے یہ الفاظ کہے: "میں نے اسے تمھارے پاس صرف اس لئے بھیجا تھا کہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اس لئے تمھارے پاس نہیں بھیجا تھا کہ تم (خود) اسے پہنو۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطارد کے خاندان کے ایک آدمی پر جیسا کہ مذکورہ بالا روایت ہے، ہاں اس میں یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تو تیری طرف صرف اس لیے یہ بھیجا تاکہ اس سے فائدہ اٹھا لو اور میں نے یہ اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہن لو۔“
یحییٰ بن ابی اسحاق نے حدیث بیان کی، کہا: سالم بن عبداللہ نے مجھ سے استبرق کے متعلق دریافت کیا، کہا: میں نے کہا: وہ دیباج جو موٹا اور سخت ہو۔انھوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص (کے کندھے) پر استبرق کا ایک حلہ دیکھا، وہ اس (حلے) کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، پھر انھوں نے ان سب کی حدیث کے مانند بیان کیا، البتہ اس میں یہ کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نےیہ جبہ اس لئے تمھارے پاس بھیجا کہ تم اس کے ذریعے سے (اسے بیچ کر) کچھ مال حاصل کرلو۔"
یحییٰ بن ابی اسحاق بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے استبرق کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: وہ دیباج جو موٹا اور کھردرا ہو تو اس نے کہا: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ کہتے سنا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو استبرق کا جوڑا پہنے دیکھا تو وہ جوڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آگے مذکورہ بالا راویوں کی طرح حدیث بیان کی، ہاں اس میں یہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تیری طرف صرف اس لیے بھیجا ہے، تاکہ تم اس سے مال و دولت حاصل کر لو۔“
حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ (کیسان) سے روایت ہے، جو کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا مولیٰ اور عطاء کے لڑکے کا ماموں تھا نے کہا کہ مجھے اسماء رضی اللہ عنہا نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام کہتے ہو، ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں، دوسرے ارجوان (یعنی سرخ ڈھڈھاتا) زین پوش کو اور تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا؟ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ روزہ علاوہ عیدین اور ایام تشریق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دہر مکروہ نہیں ہے)۔ اور کپڑے کے ریشمی نقوش کا تو نے ذکر کیا ہے تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حریر (ریشم) وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر (ریشم) نہ ہو اور ارجوانی زین پوش، تو خود عبداللہ کا زین پوش ارجوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جبہ موجود ہے، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ (جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا) نکالا جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پہنا کرتے تھے اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفاء کے لئے پلاتے ہیں۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام عبداللہ جو عطارد کی اولاد کے ماموں تھے، بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بھیجا اور کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں، کپڑوں کے نقش و نگار، ارغوانی گدے اور پورے رجب کے روزے تو حضرت عبداللہ ررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے جواب دیا: جو تو نے رجب کے بارے میں کہا تو وہ انسان جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے، رہا جو تو نے کپڑے کے نقش و نگار کے بارے میں کہا ہے تو میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ریشم وہی پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔“ اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ نقش و نگار اس میں داخل نہ ہو، رہے انتہائی سرخ (ارغوانی) گدے تو یہ عبداللہ کا گدا ہے اور وہ ارغوانی تھا تو میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے اور انہوں نے میرے سامنے ایک ارغوانی کسروانی جبہ پیش کیا، جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامن دیباج سے سلے ہوئے تھے اور انہوں نے بتایا: یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا، جب وہ وفات پا گئیں تو میں نے لے لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے اور ہم اسے صحت یابی کے لیے دھو کر بیماروں کو پلاتے تھے۔
شعبہ نے خلیفہ بن کعب ابی زبیان سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ خطبہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے: سنو!اپنی عورتوں کو ریشم نہ پہناؤ کیونکہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو (یہ حدیث بیا ن کرتے ہوئے) سنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ر یشم نہ پہنو، کیونکہ جس نے دنیا میں اسے پہنا وہ آخرت میں اس کو نہیں پہنے گا۔"
ابو ذیبان خلیفہ بن کعب بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خطبہ میں یہ کہتے ہوئے سنا: خبردار! اپنی عورتوں کو ریشمی لباس نہ پہناؤ، کیونکہ میں نے عمر بن خطاب کو یہ کہتے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریشم نہ پہنو، کیونکہ جس نے اسے پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہن سکے گا۔“
احمد بن عبداللہ بن یونس نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں زہیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عاصم احول نے ابوعثمان سے حدیث بیان کی، کہا: جب ہم آذربائیجان میں تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہماری طرف (خط میں) لکھ بھیجا: عتبہ بن فرقد!تمھارے پاس جو مال ہے وہ نہ تمھاری کمائی سے ہے، نہ تمھارے ماں باپ کی کمائی سے، مسلمانوں کو ان کی رہائش گاہوں میں وہی کھانا پیٹ بھرکے کھلاؤ جس سے اپنی رہائش گاہ میں تم خود پیٹ بھرتے ہو اور تم لوگ عیش وعشرت سے مشرکین کے لباس اور ریشم کے پہناؤوں سے دور رہنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، مگر اتنا (جائز ہے)، (یہ فرما کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں، درمیانی انگلی اورانگشت شہادت ملائیں اورانھیں ہمارے سامنے بلند فرمایا۔زہیر نے کہا: عاصم نے کہا: یہ اس خط میں ہے، (ابن یونس نے) کہا: اور زہیر نے (بھی) اپنی دو انگیاں اٹھائیں۔
ابو عثمان بیان کرتے ہیں، ہم آذربائیجان میں تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خط لکھا: اے عتبہ بن فرقد! صورت حال یہ ہے کہ تیرے پاس جو مال ہے، وہ تیری محنت و مشقت کا نتیجہ نہیں ہے، نہ تیرے باپ کی محبت کی کمائی ہے اور نہ تیری ماں کی محنت کا ثمرہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں اس سے سیر کرو، جس سے تم اپنے گھر میں سیر ہوتے ہو اور اپنے آپ کو عیش و عشرت، مشرکوں کے لباس اور شکل و صورت اور ریشم کے لباس سے بچاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس سے منع فرمایا ہے، مگر اتنی مقدار سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنی دو انگلیاں، درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی دونوں ملا کر بلند، (ظاہر) کیں عاصم نے کہا: یہ خط میں موجود ہے اور زہیر نے اپنی دونوں انگلیاں بلند کیں۔
جریر نے سلیمان تیمی سے، انھوں نے ابو عثمان سے روایت کی، کہا: ہم عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تو ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامکتوب آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ریشم (کالباس) اس کے سوا کوئی شخص نہیں پہنتا جس کا آخرت میں اس میں سے کوئی حصہ نہ ہو، سوائے اتنے (ریشم) کے (اتنی مقدار جائز ہے) "ابوعثمان نے انگوٹھے کے ساتھ کی اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا۔مجھے اس طرح معلوم ہوا کہ جیسے وہ طیلسان (نشانات والی عبا) کے بٹنوں والی جگہ (کے برابر) ہو، یہاں تک کہ میں نے (اصل) طیلسان دیکھے، (وہ اتنی مقدار ہی تھی۔)
ابو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے تو ہمارے پاس حضرت عمر کا خط پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریشم وہی پہنتا ہے، جس کا آخرت میں اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، مگر اتنی مقدار۔“ ابو عثمان نے اپنے انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا، میں نے دیکھا، وہ دونوں انگلیاں طیالسہ کے اطراف کے بقدر ہیں، جب میں نے طیالسہ دیکھا۔
معتمر نے اپنے والد (سلیمان تیمی) سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو عثمان نے حدیث بیان کی، کہا: ہم عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، جریر کی حدیث کے مانند۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں۔