سیّدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (رمضان میں) سفر کیا کرتے تھے (سفر میں بہت سے روزے سے ہوتے اور بہت سے بے روزہ ہوتے) لیکن روزہ دار بے روزہ دار پر اور بے روزہ دار روزے دار پر کسی قسم کی عیب جوئی نہیں کیا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 682]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري: 30 كتاب الصوم: 37 باب لم يعب أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعضاً في الصوم والإفطار»
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے کچھ صحابہ روزے سے تھے اور کچھ نے روزہ نہیں رکھا تھا موسم گرمی کا تھا ہم میں زیادہ بہتر سایہ جو کوئی کرتا اپنا کمبل تان لیتا خیر جو لوگ روزے سے تھے وہ کوئی کام نہ کر سکے تھے اور جن حضرات نے روزہ نہیں رکھا تھا تو انہوں نے ہی اونٹوں کو اٹھایا (پانی پلایا) اور روزہ داروں کی خوب خوب خدمت بھی کی اور (دوسرے تمام) کام کئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج اجر و ثواب کو روزہ نہ رکھنے والے لوٹ کر لے گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 683]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 18 باب فضل الخدمة في الغزو»
343. باب التخيير في الصوم والفطر في السفر
343. باب: سفر میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میں سفر میں روزہ کھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے تو افطار کر۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 684]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 30 كتاب الصوم: 33 باب الصوم في السفر والإفطار»
سیّدناابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے دن انتہائی گرم تھا گرمی کا یہ عالم کہ گرمی کی سختی سے لوگ اپنے سروں کو پکڑ پکڑ لیتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن رواحہ کے سوا اور کوئی شخص روزہ سے نہیں تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 685]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 30 كتاب الصوم: 35 باب حدثنا عبد الله بن يوسف»
344. باب استحباب الفطر للحاج بعرفات يوم عرفة
344. باب: عرفہ کے دن حاجی کے لیے روزہ نہ رکھنا مستحب ہے
ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے یہاں لوگوں کا عرفات کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے سے متعلق کچھ اختلاف ہو گیا بعض نے کہا کہ آپ (عرفہ کے دن) روزے سے ہیں اور بعض کہتے کہ نہیں اس لئے انہوں نے (ام فضل نے) آپ کے پاس دودھ کا ایک پیالہ بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اونٹ پر سوار ہو کر عرفات میں وقوف فرما رہے تھے آپ نے وہ دودھ پی لیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 686]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 25 كتاب الحج: 88 باب الوقوف على الدابة بعرفة»
سیّدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عرفہ کے دن کچھ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا اس لئے انہوں نے (سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا) آپ کی خدمت میں دودھ بھیجا آپ اس وقت عرفات میں وقوف فرما تھے آپ نے وہ دودھ پی لیا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 687]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 30 كتاب الصوم: 65 باب صوم عرفة»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا قریش زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 688]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 30 كتاب الصوم: 1 باب وجوب صوم رمضان»
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ جاہلیت میں عاشوراء کے دن ہم روزہ رکھتے تھے لیکن جب رمضان کے روزے نازل ہو گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 689]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 2 سورة البقرة: 24 باب (يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام»
سیّدنااشعث رحمہ اللہ سیّدناعبداللہ بن مسعود کے یہاں آئے وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے اشعث نے کہا کہ آج تو عاشوراء کا دن ہے سیّدناابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دنوں میں عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے نازل ہونے سے پہلے رکھا جاتا تھا لیکن جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو یہ روزہ چھوڑ دیا گیا آؤ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 690]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 2 سورة البقرة 24: باب (يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام»
حمید بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدنامعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے حج کے موقعہ پر عاشوراء کے دن منبر پرسنا انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ تمہارے علما کدھر گئے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشورا کا دن ہے اس کا روزے تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزے سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الصيام/حدیث: 691]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 30 كتاب الصوم: 69 باب صيام يوم عاشوراء»