سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی (سیّدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ) نے (نماز میں) سورہ کہف کی تلاوت کی اسی گھر میں گھوڑا بندھا ہوا تھا گھوڑے نے اچھلنا کودنا شروع کر دیا (سیّدنا اسید رضی اللہ عنہ نے ادھر خیال نہ کیا اس کو خدا کے سپرد کیا) اس کے بعد جب انہوں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے ان کے سارے گھر پر سایہ کر رکھا ہے اس واقعہ کا ذکر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ قرآن پڑھتا ہی رہتا کیوں کہ یہ سکینت ہے جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی(یا یہ کہا) نازل ہو رہی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 458]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»
سیّدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رات وقت میں سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہا تھا اور میرا گھوڑا میرے پاس ہی بندھا ہوا تھا اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو میں نے تلاوت بند کر دی تو گھوڑا بھی رک گیا پھر میں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا اس مرتبہ بھی جب میں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہو گیا تیسری مرتبہ میں نے جب تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بدکا میرے بیٹے یحییٰ چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے میں نے تلاوت بند کر دی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اوپر نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا صبح کے وقت یہ واقعہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن حضیر تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے (تو بہتر تھا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحییٰ کو نہ کچل ڈالے وہ اس سے بہت قریب تھا میں نے سر اوپر اٹھایا اور پھر یحییٰ کی طرف گیا پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی؟ سیّدنا اسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 459]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 66 كتاب فضائل القرآن: 15 باب نزول السكينة والملائكة عند قراءة القرآن»
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو سنگترے جیسی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور مزہ میٹھا ہوتا ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو ریحانہ (پھول) جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 460]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 70 كتاب الأطعمة: 30 باب ذكر الطعام»
228. باب فضل الماهر بالقرآن والذي يتتعتع فيه
228. باب: قرآن پڑھنے میں ماہر کا بیان اور اس کا بیان جو اٹک اٹک کر قرآن پڑھے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے مکرم اور نیک لکھنے والے (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید بار بار پڑھتا ہے پھر بھی وہ اس کے لئے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 461]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 80 سورة عبس»
229. باب استحباب قراءة القرآن على أهل الفضل والحذاق فيه وإن كان القارئ أفضل من المقروء عليه
229. باب: مرتبہ میں افضل و برتر قاری کا اپنے سے کم رتبہ کے سامنے تلاوت قرآن کرنا
حدیث نمبر: 462
462 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأُبَيٍّ: إِنَّ الله أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ (لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا) قَالَ: وَسَمَّانِي قَالَ: نَعمْ فَبَكَى
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو سورہ لم یکن الذین کفروا سناؤں سیّدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بولے کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس پر سیّدنا ابی بن کعب فرط مسرت سے رونے لگے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 462]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 16 باب مناقب أبي بن كعب رضى الله عنه»
230. باب فضل استماع القرآن وطلب القراءة من حافظه للاستماع والبكاء عند القراءة والتدبر
230. باب: قرآن سننے، حافظ سے اس کی فرمائش کرنے اور بوقت قرات رونے اور غور کرنے کا بیان
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرو میں نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں کیا تلاوت کروں آپ پر تو قرآن مجید نازل ہی ہوتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی اور سے سنوں راوی نے بیان کیا کہ میں نے سورہ نساء پڑھی اور جب میں آیت فکیف اذ ا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علی ھؤلاء شھید پر پہنچا تو نبی کریم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کُفٍّ فرمایا یا اَمْسِکْ راوی کو شک ہے) میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے (کُفٍّ اوراَمْسِکْ) ہر دو کے ایک معنی ہیں یعنی رک جاؤ آیت میں محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کا ذکر ہے جب آپ اپنی امت پر گواہی کے لیے پیش ہوں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 463]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 66 كتاب فضائل القرآن: 35 باب البكاء عند قراءة القرآن»
علقمہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ہم حمص میں تھے سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ یوسف پڑھی تو ایک شخص بولا کہ اس طرح نہیں نازل ہوئی تھیں سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس سورت کی تلاوت کی تھی اور آپ نے میری قرات کی تحسین فرمائی انہوں نے محسوس کیا کہ اس معترض کے منہ سے شراب کی بدبو آ رہی ہے تو فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے متعلق جھوٹا بیان اور شراب پینے جیسے گناہ ایک ساتھ کرتا ہے پھر انہوں نے اس پر حد جاری کروائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 464]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 66 كتاب فضائل القرآن: 8 باب القرّاء من أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم»
231. باب فضل الفاتحة وخواتيم سورة البقرة والحث على قراءة الآيتين من آخر البقرة
231. باب: سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی فضیلت
حدیث نمبر: 465
465 صحيح حديث أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، مَنْ قَرَأَهُمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ
سیّدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ایسی ہیں کہ جو شخص رات میں انہیں پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہو جاتی ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 465]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازى 12 باب حدثنى خليفة»
232. باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلمه، وفضل من تعلم حكمة من فقه أو غيره فعمل بها وعلمها
232. باب: قرآن پر عمل کرنے اور اس کے سکھانے والے کی فضیلت
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کی تلاوت دن رات کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دن رات خرچ کرتا رہا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 466]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 45 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به»
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد (رشک) صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے جسے اللہ نے دولت دی ہو، اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو۔ وہ اس کے ذریعہ فیصلے کرتا ہو، اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 467]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 15 باب الاغتباط في العلم والحكمة»