1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساجد ومواضع الصلاة
کتاب: مسجدوں اور نمازوں کی جگہوں کا بیان
حدیث نمبر: 358
358 صحيح حديث أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: أَذَّنَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، فَقَالَ: أَبْرِدْ أَبْرِدْ أَوْ قَالَ: انْتَظِرْ انْتَظِرْ، وَقَالَ: شِدَّةُ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاَةِ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ
سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن (سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ) نے ظہر کی اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا کر ٹھنڈا کر یا یہ فرمایا کہ انتظار کر انتظار کر اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے اس لئے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو (پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی) جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 358]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 9 باب الإبراد بالظهر في شدة الحر»

حدیث نمبر: 359
359 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا؛ فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو کیونکہ گرمی کی تیزی دوزخ کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب (آگ کی شدت کی وجہ سے) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 359]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 9 باب الإبراد بالظهر في شدة الحر»

183. باب استحباب تقديم الظهر في أول الوقت في غير شدة الحر
183. باب: جب گرمی نہ ہو تو ظہر اول وقت پڑھنی چاہیے
حدیث نمبر: 360
360 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ، فَإِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَحَدُنَا أَنْ يُمَكِّنَ وَجْهَهُ مِنَ الأَرْضِ بَسَطَ ثَوْبَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سخت گرمیوں میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور چہرے کو زمین پر پوری طرح رکھنا مشکل ہو جاتا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 360]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 21 كتاب العمل في الصلاة: 9 باب بسط الثوب في الصلاة للسجود»

184. باب استحباب التبكير بالعصر
184. باب: عصر اول وقت پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 361
361 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، فَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ؛ وَبَعْضُ الْعَوَالِي مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَمْيَالٍ، أَوْ نَحْوِهِ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا (راوی نے کہا کہ) مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریبا چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 361]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 13 باب وقت العصر»

حدیث نمبر: 362
362 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الظُّهْرَ، ثُمَّ خَرَجْنَا حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَوَجَدْنَاهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ، فَقُلْتُ: يَا عَمِّ مَا هذِهِ الصَّلاَةُ الَّتِي صَلَّيْتَ قَالَ: الْعَصْرُ، وَهذِهِ صَلاَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي كُنَّا نُصَلِّي مَعَهُ
سیّدنا ابو امامہ (سیّدنا سعد بن سہل رضی اللہ عنہ) کہتے تھے کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی پھر ہم نکل کر سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ نماز پڑھ رہے ہیں میں نے عرض کی کہ اے مکرم چچا یہ کون سی نماز آپ نے پڑھی ہے؟ فرمایا کہ عصر کی اور اسی وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہ نماز پڑھتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 362]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 13 باب وقت العصر»

حدیث نمبر: 363
363 صحيح حديث رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رضي الله عنه، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَنَنْحَرُ جَزُورًا فَتُقْسَمُ عَشْرَ قِسْمٍ، فَنأْكُلُ لَحْمًا نَضِيجًا قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ
سیّدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹ ذبح کرتے اس کو دس حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہم اس کا پکا ہوا گوشت بھی کھا لیتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 363]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 47 كتاب الشركة: 1 باب الشركة في الطعام»

185. باب التغليظ في تفويت صلاة العصر
185. باب: نماز عصر فوت ہونے کے نقصان کا بیان
حدیث نمبر: 364
364 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الَّذِي تَفُوتُهُ صَلاَةُ الْعَصْرِ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال لٹ گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 364]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 14 باب إثم من فاتته العصر»

186. باب الدليل لمن قال الصلاة الوسطى هي صلاة العصر
186. باب: اس کی دلیل جس نے کہا نماز وسطیٰ سے مراد نماز عصر ہے
حدیث نمبر: 365
365 صحيح حديث عَلِيٍّ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ الأَحْزَابِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَلأَ اللهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبورَهُمْ نَارًا، شَغَلُونَا عَنِ الصَّلاَةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ احزاب (خندق) کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین کو) یہ بددعا دی کہ اے اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے انہوں نے ہم کو صلوۃ وسطی (عصر کی نماز) نہیں پڑھنے دی حتی کہ سورج بھی غروب ہو گیا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 365]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 98 باب الدعاء على المشركين بالهزيمة والزلزلة»

حدیث نمبر: 366
366 صحيح حديث جَابرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ جَاءَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ بَعْدَمَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسولَ اللهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: واللهِ مَا صَلَّيْتُهَا فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ، فَتوَضَّأَ للِصَّلاَةِ، وَتَوَضَّأْنَا لَهَا، فَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقعہ پر (ایک مرتبہ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول سورج غروب ہو گیا اور نماز عصر پڑھنا میرے لئے ممکن نہ ہو سکا اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی ہے پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز کے لئے وضو کیا ہم نے بھی وضو بنایا اس وقت سورج ڈوب چکا تھا پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 366]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 36 باب من صلى بالناس جماعة بعد ذهاب الوقت»

187. باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما
187. باب: صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان کی محافظت کا بیان
حدیث نمبر: 367
367 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ، مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ وَصَلاَةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ، وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْناهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 367]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 16 باب فضل صلاة العصر»


Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    Next