سیّدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر وہ شخص ہوتا ہے جو (مسجد میں نماز کے لئے) زیادہ سے زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو (پہلے ہی) پڑھ کر سو جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 388]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 31 باب صلاة الفجر في جماعة»
196. باب المشي إِلى الصلاة تمحى به الخطايا وترفع به الدرجات
196. باب: نماز کے لیے چل کر جانے سے خطائیں مٹتی اور درجات بلند ہوتے ہیں
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ ہرگز نہیں آپ نے فرمایا یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 389]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 6 باب الصلوات الخمس كفارة»
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 390]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 37 باب فضل من غدا إلى المسجد ومن راح»
سیّدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور (سفر میں) نماز پڑھتے رہنا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 391]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 17 باب من قال ليؤذن في السفر مؤذن واحد»
198. باب استحباب القنوت في جميع الصلاة إِذا نزلت بالمسلمين نازلة
198. باب: جب مسلمانوں پر کوئی بلا نازل ہو تو بلند آواز سے قنوت پڑھنا مستحب ہے
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک (رکوع سے) اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہہ کر چند لوگوں کے لئے دعائیں کرتے اور نام لے لے کر فرماتے یا اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور تمام کمزور مسلمانوں کو (کفار سے) نجات دے اے اللہ قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر ایسا قحط مسلط کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آیا تھا ان دنوں مشرق والے قبیلہ مضر کے لوگ مخالفین میں تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 392]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 128 باب يهوى بالتكبير حين يسجد»
حدیث نمبر: 393
393 صحيح حديث أَنَسٍ، قَالَ: قَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی اور اس میں قبائل رعل و ذکوان پر بد دعا کی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 393]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 14 كتاب الوتر: 7 باب القنوت قبل الركوع وبعده»
حضرت عاصم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہیے میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب (محمد بن سیرین) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ انہوں نے غلط کہا ہے پھر سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت کی تھی اور آپ نے اس میں قبیلہ بنو سلیم کے قبیلوں کے حق میں بد دعا کی تھی انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت (راوی کو شک تھا) مشرکین کے پاس بھیجی تھی لیکن یہ بنی سلیم کے لوگ (جن کا سردار عامر بن طفیل تھا) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا (لیکن انہوں نے دغا دی) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 58 كتاب الجزية: 8 باب دعاء الإمام على من نكث عهدا»
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم بھیجی جس میں شریک لوگوں کو قراء (یعنی قرآن مجید کے قاری) کہا جاتا تھا ان سب کو شہید کر دیا گیا میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی چیز کا اتنا غم ہوا ہو جتنا آپ کو ان کی شہادت کا غم ہوا تھا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک فجر کی نماز میں ان کے لئے بد دعا کی آپ کہتے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 395]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الدعوات: 58 باب الدعاء على المشركين»
199. باب قضاء الصلاة الفائتة واستحباب تعجيل قضائها
سیّدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاؤ کیا (چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے) اس لئے سب لوگ اتنی گہری نیند سو گئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جاگے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تاآنکہ آپ خود ہی جاگتے پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی جاگ گئے آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے سر مبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا (پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے) اور یہاں آپ اترے اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اس سے فرمایا: اے فلاں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تمہیں کس چیز نے روکا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کر لے (پھر اس نے بھی تیمم کے بعد) نماز پڑھی سیّدنا عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا (تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان (سواری پر) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جا رہی تھی ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں؟ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آخر ہم اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اس نے آپ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے (اس لئے واجب الرحم ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپ نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہو کر پیا اور اپنے تمام مشکیزے بالٹیاں بھی بھر لیں ہم نے صرف اونٹوں کو پانی نہیں پلایا اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ابھی بہہ پڑیں گی اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ (کھانے کی چیزوں میں سے) تمہارے پاس ہے میرے پاس لاؤ چنانچہ اس عورت کے سامنے ٹکڑے اور کھجوریں لا کر جمع کر دی گئیں پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ (اس کے ماننے والے) لوگ کہتے ہیں وہ واقعی نبی ہے آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 396]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے اس قضا کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا اور (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 397]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 37 باب من نسى صلاة فليصل إذا ذكرها ولا يعيد إلا تلك الصلاة»