سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئی جو کھانا نہیں کھاتا تھا (یعنی شیر خوار تھا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گود میں بٹھا لیا اس بچے نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا آپ نے پانی منگا کر کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے نہیں دھویا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطهارة/حدیث: 164]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 4 كتاب الوضوء: 59 باب بول الصبيان»
90. باب غسل المني في الثوب وفركه
90. باب: منی سے آلودہ کپڑے کو دھونے اور کھرچنے کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے اس منی کے بارے میں پوچھا گیا جو کپڑے کو لگ جائے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی۔ پھر آپ نماز کے لئے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان (یعنی) پانی کے دھبے آپ کے کپڑے میں باقی ہوتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطهارة/حدیث: 165]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 4 كتاب الوضوء: 64 باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب المرأة»
راوي حدیث: سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبداللہ تھی۔ ابتداء میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے دس سال بڑی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی کے بیٹے سیّدنازبیر کی زوجہ تھیں۔ ذات النطاقین کے لقب سے معروف ہیں۔ ہجرت کے وقت حاملہ تھیں، اسی بطن سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تھے۔ اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی تھی کہ اے بیٹے عزت کی زندگی گزارو اور عزت کی موت مرو اور دشمن تمہیں قیدی نہ بنا سکے۔ سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت سے دس یا بیس دن بعد سو برس کی عمر میں ۷۳ہجری کو مکہ میں وفات پائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطهارة/حدیث: 166]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاری فی: ۴۔ کتاب الوضوء: ۶۳۔ باب غسل الدم»
92. باب الدليل على نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه
92. باب: پیشاب کی نجاست اور اس سے سخت پرہیز کا بیان
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا، لوگوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایسا) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں، ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطهارة/حدیث: 167]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 4 كتاب الوضوء: 56 باب ما جاء في غسل البول»