1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 45
45 صحيح حديثُ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَيْلَكُمْ أَوْ وَيْحَكُمْ، لا تَرْجِعُوا بَعْدي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقابَ بَعْضٍ
سیّدنا ابن عمررضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس (راوی کو شک ہے کہ ویلکم یا ویحکم کہا) میرے بعد تم کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 45]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 95 باب ما جاء في قول الرجل ويلك»

24. باب بيان كفر من قال مطرنا بالنوء
24. باب: اس شخص کا کافر بن جانا جو کہے کہ بارش ستاروں کی گردش سے ہوئی
حدیث نمبر: 46
46 صحيح حديث زَيْدِ بْنِ خالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: صَلّى لَنا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاةَ الصُّبْحِ بالحُدَيْبِيَةِ عَلى إِثْرِ سَماءٍ كانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلى النَّاسِ فَقالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذا قَالَ رَبُّكُمْ قَالوا اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبادي مُؤْمِنٌ بِيَ وَكافِرٌ، فَأَمّا مَنْ قَالَ مُطِرْنا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِيَ وَكافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمّا مَنْ قَالَ مُطِرْنا بِنَوْءِ كَذا وَكَذا فَذَلِكَ كافِرٌ بِيَ وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ
سیّدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلاں جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں پر ایمان رکھتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 46]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 156 باب يستقبل الإمام الناس إذا سلّم»

25. باب الدليل على أن حب الأَنصار من الإيمان
25. باب: اس بات کی دلیل کہ انصار سے محبت ایمان کی نشانی ہے
حدیث نمبر: 47
47 صحيح حديث أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آيَةُ الإيمانِ حُبُّ الأَنْصارِ، وَآيَةُ النِّفاقِ بُغْضُ الأَنْصارِ
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 47]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: كتاب الإيمان: 10 باب علامة الإيمان حب الأنصار»

حدیث نمبر: 48
48 صحيح حديث الْبَراء قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الأَنْصارُ لا يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلا يُبْغِضُهُمْ إِلاّ مُنافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللهُ
سیّدنا براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا پس جو شخص ان سے محبت رکھے گا اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 48]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 4 باب حب الأنصار»

26. باب بيان نقصان الإيمان بنقص الطاعات
26. باب: عبادت کی کمی سے ایمان کے کم ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 49
49 صحيح حديث أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلى المُصَلَّى فَمَرَّ عَلى النِّساءِ فَقَالَ: يا مَعْشَرَ النِّساءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنّي أُريتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ: وَبِمَ يا رَسُولَ اللهِ قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشيرَ، ما رَأَيْتُ مِنْ ناقِصاتٍ عَقْلٍ وَدينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحازِمِ مِنْ إِحْداكُنَّ قُلْنِ: وَما نُقْصانُ دِينِنا وَعَقْلِنا يا رَسُولَ اللهِ قَالَ: أَلَيْسَ شَهادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهادَةِ الرَّجُلِ قُلْنِ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكَ مِنْ نُقْصانِ عَقْلِها، أَلَيْسَ إِذا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ: بَلى، قَالَ: فَذَلِكَ مِنْ نُقْصانِ دِينِها
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالضحی یا عیدالفطر میں عید گاہ تشریف لے گئے وہاں آپ عورتوں کے قریب سے گذرے تو فرمایا: اے عورتوں کی جماعت صدقہ کرو کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے انہوں نے کہا یا رسول اللہ ایسا کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقل مند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا عورتوں نے عرض کی اور ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا جی ہے آپ نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے آپ نے فرمایا یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 49]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: كتاب الحيض: 6 باب ترك الحائض الصوم»

27. باب بيان كون الإيمان بالله تعالى أفضل الأعمال
27. باب: اللہ پر ایمان لانا سب کاموں سے بڑھ کر ہے
حدیث نمبر: 50
50 صحيح حديث أَبي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ فَقَالَ: إِيمانٌ بِاللهِ وَرَسُولِهِ قِيلَ: ثُمَّ ماذا قَالَ: الْجِهادُ في سَبيلِ اللهِ قِيلَ: ثُمَّ ماذا قَالَ: حَجٌّ مَبْرورٌ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ فرمایا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا کہا گیا اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کہا گیا پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا حج مبرور۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 50]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 18 باب من قال إن الإيمان هو العمل»

حدیث نمبر: 51
51 صحيح حديث أَبي ذَرٍّ رضي الله عنه، قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ: إِيمانٌ بِاللهِ وَجِهادٌ في سَبيلِهِ قُلْتُ: فَأَيُّ الرِّقابِ أَفْضَلُ قَالَ: أَغْلاها ثَمَنًا وَأَنْفَسُها عِنْدَ أَهْلِهَا قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ قَالَ: تُعِينُ صَانِعًا أَوْ تَصْنَعُ َلأخْرَقَ قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ قَالَ: تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ فَإِنَّها صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِها عَلى نَفْسِكَ
سیّدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا میں نے پوچھا اور کس طرح کا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور مالک کی نظر میں جو بہت زیادہ پسندیدہ ہو میں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے یہ نہ ہو سکا؟ آپ نے فرمایا کہ پھر کسی مسلمان کاری گر کی مدد کر یا کسی بے ہنر کی انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی نہ کر سکا؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 51]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 2 باب أي الرقاب أفضل»

حدیث نمبر: 52
52 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلى اللهِ قَالَ: الصَّلاةُ عَلى وَقْتِها قَالَ: ثُمَّ أَيّ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوالِدَيْنِ قَالَ: ثُمَّ أَيّ قَالَ: الْجِهادُ في سَبيلِ اللهِ قَالَ حَدَّثَنِي بِهِنَّ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا پھر پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا پوچھا اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ سیّدنا ابن مسعود نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور زیادہ بھی بتلاتے (لیکن میں نے بطور ادب کے خاموشی اختیار کی)۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 52]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 5 باب فضل الصلاة لوقتها»

28. باب كون الشرك أقبح الذنوب وبيان أعظمها بعده
28. باب: شرک سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے اور اس کے بعد کون سا گناہ؟ اس کا بیان
حدیث نمبر: 53
53 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ للهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قُلْتُ: إِنَّ ذَلِكَ لَعَظيمٌ، قلْتُ: ثُمَّ أَيّ قَالَ: وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيّ قَالَ: أَنْ تُزانِيَ حَليلَةَ جارِكَ
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا: یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟ فرمایا: یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 53]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير، تفسير سورة البقرة: 3 باب قوله تعالى: (فلا تجعلوا لله أندادًا»

29. باب بيان الكبائر وأكبرها
29. باب: کبیرہ گناہوں اور ان میں بڑے گناہوں کا بیان
حدیث نمبر: 54
54 صحيح حديث أَبي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبائِرِ ثَلاثًا، قَالُوا: بَلى يا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: الإِشْراكُ بِاللهِ وَعُقوقُ الْوالِدَيْنِ وَجَلَسَ، وَكانَ مُتَّكِئًا، فَقالَ أَلا وَقَوْلُ الزّورِ قَالَ فَما زَالَ يُكَرِّرُها حَتّى قُلْنا لَيْتَهُ سَكَتَ
سیّدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ تین بار آپ نے اسی طرح فرمایا صحابہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ آپ نے فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا ماں باپ کی نافرمانی کرنا آپ اس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ہاں اور جھوٹی گواہی بھی سیّدنا ابو بکرہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش آپ خاموش ہو جاتے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 54]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 52 كتاب الشهادات: 10 باب ما قيل في شهادة الزور»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next