1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
24. باب بيان كفر من قال مطرنا بالنوء
24. باب: اس شخص کا کافر بن جانا جو کہے کہ بارش ستاروں کی گردش سے ہوئی
حدیث نمبر: 46
46 صحيح حديث زَيْدِ بْنِ خالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: صَلّى لَنا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاةَ الصُّبْحِ بالحُدَيْبِيَةِ عَلى إِثْرِ سَماءٍ كانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلى النَّاسِ فَقالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذا قَالَ رَبُّكُمْ قَالوا اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبادي مُؤْمِنٌ بِيَ وَكافِرٌ، فَأَمّا مَنْ قَالَ مُطِرْنا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِيَ وَكافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمّا مَنْ قَالَ مُطِرْنا بِنَوْءِ كَذا وَكَذا فَذَلِكَ كافِرٌ بِيَ وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ
سیّدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلاں جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں پر ایمان رکھتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 46]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 156 باب يستقبل الإمام الناس إذا سلّم»

وضاحت: کفر سے حقیقی کفر مراد ہے۔ معلوم ہوا کہ جو کوئی ستاروں کو موثر جانے وہ بہ نص حدیث کافر ہے۔ پانی برسانا اللہ کا کام ہے ستارے کیا کر سکتے ہیں۔ (راز) راوي حدیث: سیّدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو زرعہ یا ابوعبدالرحمن یا ابو طلحہ تھی۔ صلح حدیبیہ میں شریک تھے اور فتح مکہ کے دن جہینہ قبیلے کے علم بردار تھے۔ ۸۵ سال کی عمر میں ۷۸ ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائی۔