ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے دن خطبہ کے دوران سنا کہ ”خوب جان لو، بیشک تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزّتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت ہے، جیسے تمہارا یہ مہینہ محترم ہے جیسے تمہارا یہ شہر حرمت والا ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2808]
1977. اس بات کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اونٹنی پر سوار ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا تھا، آپ نے سواری سے اُتر کر زمین پر کھٹرے ہوکر خطبہ نہیں دیا تھا
جناب جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر مکمّل حدیث بیان کی اور فرمایا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مزدلفہ اور وادی عرفہ وغیرہ میں رکے بغیر) عرفات پہنچ گئے، جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے اپنی اونٹنی قصواء پر کجاوہ رکھنے کا حُکم دیا تو اُس پر کجاوہ رکھ دیا گیا۔ پھر آپ اُس پر سوار ہوکر وادی عرفات کے وسط میں تشریف لائے تو لوگوں سے خطاب فرمایا، آپ نے فرمایا: ”بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس شہر میں اس مہینے میں تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے۔ خبردار، جاہلیت میں کئے گئے عمل بھی رائیگاں ہیں۔ میں اپنے مقتولوں میں سے سب سے پہلے ابن ربیعہ بن حارث کا قتل معاف کرتا ہوں، وہ بنی سعد میں دودھ پیتے تھے تو قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اسے قتل کر دیا تھا۔ جاہلیت کا تمام سود بھی کالعدم ہے میں اپنے خاندان کے سود میں سے سب سے پہلے سیدنا عباس بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ) کا سود (جو لوگوں کے ذمے ہے) سب معاف کرتا ہوں۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ تم نے اللہ کی امانت کے ساتھ انہیں حاصل کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے کلمے کے ساتھ ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر تمہارے ناپسندیدہ شخص کو نہ بیٹھنے دیں، اگر وہ یہ کام کریں تو تم اُنہیں ہلکی پھکی سزا دے سکتے ہو، اُن کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اُنہیں دستور کے مطابق کھانا پینا اور لباس مہیا کرو۔ اور بیشک میں تمہارے اندر ایک ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ تم جب تک اس پر عمل پیرا رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ اور (قیامت کے روز) تم سے میرے بارے میں پوچھا جائیگا تو تم کیا جواب دو گے؟“ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب کے تمام پیغامات پہنچا دیے ہیں۔ اور اپنی اُمّت کی خیر خواہی کا حق بھی خوب ادا کیا ہے، اور آپ نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کردی ہے۔ تو آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف بلند کرکے سامعین پر جھکاتے ہوئے فرمایا: ”اے اللہ، گواہ ہو جا۔ اے اللہ، گواہ ہو جا۔ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے کتاب النکاح میں وضاحت کر دی ہے کہ آپ کا فرمان ”تمہارے بستر پر تمہارے ناپسندیدہ شخص کو نہ بیٹھنے دیں“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر کو کسی ناپسندیدہ اشخاص کے قدموں تلے نہ روندیں۔ کسی کو اس پر نہ بیٹھنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”تم کسی شخص کی خصوصی نشست پر اُس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو۔“ آدمی کا بستر بھی اس کی خصوصی نشست گاہ ہوتا ہے۔ آپ کے اس فرمان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تمہارے کسی ناپسندیدہ شخص سے ہمبستری نہ کریں۔ جیسا کہ بعض جہلاء کو وہم ہوا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2809]
حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما عرفات والے دن سورج ڈھلنے کے بعد حجاج بن یوسف کے پاس آئے، میں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ اُنھوں نے فرمایا کہ اگر سنّت نبی پرعمل کرنا چاہتے ہو تو چلو (اور خطبہ دو) اُس نے عرض کیا کہ ابھی چلوں؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں ابھی چلو۔ حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حجاج سے کہا، اگرتم آج سنّت نبی پرعمل پیرا ہونا چاہتے ہو تو خطبه مختصر دینا اور نماز جلدی پڑھانا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، سالم نے سچ کہا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2810]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کرکے ادا کیں۔ اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ پڑھیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2811]
جناب جعفر بن محمد اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا، ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھوں نے (حجة الوداع کی) تفصیلی روایت بیان کی۔ اُنھوں نے فرمایا، پھر نبی کریم نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان پڑھی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اُنھوں نے عصر کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی، آپ نے ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی (نفل) نماز نہیں پڑھی۔ پھر آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوکر موقف (کھڑے ہوکر دعائیں مانگنے کے مقام) پر تشریف لائے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2812]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مکّہ والوں کو دو رکعات پڑھا کر سلام پھیر دیتے تھے پھر وہ کھڑے ہوکر اپنی بقیہ نمازمکمّل کرلیتے تھے۔ حجاج بن یوسف جس سال سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کے لئے مکّہ مکرّمہ آیا، حضرت سالم نے حجاج کو کچھ مسائل بتائے۔ اس نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ وہ انھیں بتائیں کہ عرفات میں کیسے اعمال حج ادا کرنے ہیں۔ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا، اگرتم سنّت نبوی پرعمل کرنا چاہتے ہو تو عرفات کے دن نماز کو پہلے وقت میں ادا کرو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سالم نے سچ کہا ہے۔ صحابہ کرام عرفات کے دن نماز ظہر اور عصر جمع کرکے سنّت کے مطابق ادا کرتے تھے۔ میں نے سالم سے عرض کیا، کیا یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ بلاشبہ صحابہ کرام صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کی پیروی کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2813]
حضرت سالم بن عبداللہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو خط لکھ کر حُکم دیا کہ وہ اعمال حج کی ادائیگی میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت نہ کرے۔ لہٰذا جب عرفات کا دن آیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما حجاج بن یوسف کے پاس سورج ڈھلتے ہی آئے، میں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ اُنھوں نے حجاج کے خیمے کے پاس آ کر اُسے آواز دی، یہ حجاج کہاں ہے؟ تو حجاج ایک چادر اوڑھے اُن کے پاس حاضر ہوگیا۔ اُس نے عرض کیا کہ اے ابوعبدالرحمان فرمایئے کیا حُکم ہے؟ اُنھوں نے فرمایا، اگر سنّت نبوی پرعمل کرنا چاہتے ہو تو اب چلو۔ اُس نے عرض کیا کہ میں اپنے بدن پر پانی بہا کر ابھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ لہٰذا انھوں نے اُس کا انتظار کیا حتّیٰ کہ جب وہ باہر آیا تو میرے اور میرے والد محترم کے درمیان چلنے لگا۔ میں نے اس سے کہا، اگر تم سنّت نبوی کو پانا چاہتے ہو تو خطبه مختصر دینا اور وقوف کے لئے جلدی کرنا۔ تو اُس نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تاکہ وہ یہی بات اُن سے سن سکے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جب اُس کی یہ چاہت محسوں کی تو فرمایا کہ سالم نے سچ کہا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2814]
جناب جعفر بن محمد اپنے والد محترم سے بیان کرتے ہیں کہ اُنھوں نے فرمایا، ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو ہم نے اُن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں سوال کیا۔ اُنھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ نے عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: ”میں اس جگہ ٹھہرا ہوں اور سارا میدان عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2815]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(عرفات جاتے ہوئے وادی عرنہ سے آگے نکل جاؤ اور (مزدلفہ آتے وقت) واوی محسر سے جلدی آگے نکل جاؤ۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2816]