سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم سب سے آخر میں آنے والی اُمّت ہیں اور ہم قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، تاہم انہیں ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد کتاب عطا ہوئی۔ پھر یہ دن جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا تھا٬ انہوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی ہدایت دے دی یعنی جمعہ کے دن کی - لوگ اس بارے میں ہمارے پیروکار ہیں یہودی کل (ہفتے کو) اور عیسائی اتوار کو عبادت کریں گے -“ یہ جناب مخزومی کی حدیث ہے - اور جناب عبدالجبار کی روایت میں ہے کہ ”اور یہ دن جس میں انہوں نے اختلاف کیا تھا۔“ اور ایک مرتبہ کہا کہ ” پھر یہ دن جس کو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا تھا، اُنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا۔“ جناب معمر کی ہمام بن منبہ کے واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت اسی باب سے ہے - [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْجُمُعَةِ/حدیث: 1720]
اور یہ مسئلہ اس جنس سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ ان معلل روایات میں سے ہے جن پر قیاس کرنا جائز ہے، میں نے اسے حدیث کے بعد بیان کردیا ہے [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْجُمُعَةِ/حدیث: Q1721]
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہربالغ شخص کے لئے جمعہ کے لئے جانا ضروری ہے اور جمعہ کے لئے جانے والے شخص پر غسل کر نا واجب ہے۔“ امام ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ”ہر بالغ شخص کے لئے جمعہ کے لئے جانا واجب ہے -“ یہ ان الفاظ میں سے ہیں جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب حُکم کسی علت و سبب کی بنیاد پر ہو تو اس کے ساتھ تمثیل و تشبیہ دینا جائز ہوتا ہے۔ جب تک وہ علت باقی ہو وہ حُکم واجب ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ ہر محکم (بالغ) شخص کے لئے جمعہ کے لئے حاضر ہونا واجب ہے اور احتلام سے مراد بالغ ہونا ہے - لہٰذا جب کوئی شخص بالغ ہو جائے اور اگرچہ اسے احتلام نہ آئے اور وہ کسی اور علامت سے بالغ ہو جائے تو ایسے ہر بالغ شخص پر جمعہ فرض ہوتا ہے اگرچہ اس کا بالغ ہونا احتلام کے علاوہ کسی اور علامت سے ہی ہو۔ اگرچہ یہ بات ہمارے قاعدے کے خلاف ہے اور تشبیہ وتمثیل میں ہمارے مخالفین کے قاعدے اور اصول کے مطابق ہے - اس کا خیال یہ ہے کہ حُکم کسی علت کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ حُکم صرف تعبد کے لئے ہوتا ہے - اگر بات ایسے ہی ہو تو وہ شخص جس کی عمر بیس یا تیس سال ہو اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا (اُسے احتلام نہ آیا ہو) اور وہ مسلمان عقلمند آزاد شخص ہو وہ شہر میں جمعہ کے لئے اذان سنے یا وہ مسجد کے دروازے پر موجود ہو تو اُس کے لئے جمعہ کے لئے حاضر ہونا واجب نہیں ہوگا - کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ جمعہ کی حاضری صرف محتلم شخص پر واجب ہے - حالانکہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں سالہا سال تک احتلام نہیں ہوتا اور یہ حُکم اللہ تعالیٰ کے اس حُکم کی طرح ہے: «وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ» [ سورة النور: 59 ]”اور جب تم میں سے لڑکے بلوغت کی حد کو پہنچ جائیں تو اُنہیں چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت مانگیں جس طرح اُن سے پہلے (ان کے بڑے) اجازت مانگتے رہے ہیں۔“ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان بچّوں کو اجازت لینے کا حُکم دیا ہے جنہیں احتلام آ جائے اور احتلام کا آنا بالغ ہونے کی دلیل ہے اور اگر تشبیہ اور نظیر (پر قیاس کرتے ہوئے) حُکم لگانا جائز نہ ہوتا تو ایسا شخص جو تیس سال کا ہو جائے اور اسے احتلام نہ آئے تو اس پر اجازت طلب کرنا واجب نہیں ہو گا۔ اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی طرح ہے کہ ”تین قسم کے افراد سے قلم اُٹھالی گئی ہے (وہ شریعت کے مکلف نہیں ہیں) اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور بچّے سے حتّیٰ کہ اسے احتلام آنے لگے۔“ اور جس شخص کو احتلام نہ آئے اور وہ اس عمر کو پہنچ چکا ہو جس میں انسان بغیر احتلام کے بالغ ہو جاتا ہے تو ایسے شخص سے قلم نہیں اُٹھایا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شخص سے علم نہیں اُٹھایا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب ” یہاں تک کہ وہ احتلام والا ہو جائے‘ یہ ہے کہ احتلام بلوغت کی دلیل ہے۔ اس لئے جب بھی بچّہ بالغ ہوجائے گا اگر چہ احتلام آئے بغیر ہی ہو، تو اس پر شرعی احکام لاگو ہوں گے اور اس پرقلم جاری ہوگا جیسا کہ احتلام آنے کے بعد جاری ہوتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْجُمُعَةِ/حدیث: 1721]
جناب اسماعیل بن عبد الرحمان بن عطیہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ مجھے میری دادی نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری عورتوں کو ایک گھر میں جمع کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا، ہم نے اُن کے سلام کا جواب دیا۔ پھر اُنہوں نے فرمایا کہ میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔ ہم نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے پیام رساں کو خوش آمدید۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا تم اس شرط پر بیعت کرتی ہو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤگی، نہ چوری کروگی نہ زنا کاری میں مبتلا ہوگی؟ وہ فرماتی ہیں، ہم نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ لہذا ہم نے گھر کے اندر ہی سے اپنے ہاتھ (بیعت کے لئے) بڑھائے اور اُنہوں نے باہر سے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ وہ فرماتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دیا کہ ہم عیدین کے روز حیض والی کنواری لڑکیوں کو بھی نکالا کریں اور ہمیں جنازوں کی اتباع سے منع کردیا گیا، اور ہم پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے اُن سے کہا، وہ کون سا معروف کام ہے جس سے تمہیں منع کیا گیا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ نوحہ گری سے منع کیا گیا۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْجُمُعَةِ/حدیث: 1722]
امام صاحب اپنے استاد محمد بن معمر قیسی سے مذکورہ بالا کی طرح روایت کرتے ہیں اور اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ”تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا“[صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْجُمُعَةِ/حدیث: 1723]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبد الرحمان بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد محترم سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی بینائی ختم ہونے کے بعد اُن کا راہنما ہوتا تھا۔ اور جب میں اُنہیں لیکر جمعہ کے لئے گھر سے نکلتا اور وہ جمعہ کی اذان سُنتے تو سیدنا ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے خیر کرتے، فرماتے ہیں کہ وہ ایک عرصہ تک اسی طرح جب جمعہ کے لئے اذان سُنتے تو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا کرتے اور اُن کے لئے بخشش طلب کرتے۔ میں نے اپنے دعائے خیر کرتے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ کی قسم، یہ تو میری نہایت بے بسی ہے کہ میں اُن سے یہ بھی نہ پوچھ سکوں کہ وہ جمعہ کی اذان سُن کر سیدنا ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعائے خیر کیوں کرتے ہیں؟ بیان کرتے ہیں کہ میں پہلے کی طرح جمعہ کے روز اُنہیں لیکر گھر سے نکلا۔ جب اُنہوں نے جمعہ کی اذان سُنی تو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا کی اور استغفار کیا۔ تو میں نے اُن سے عرض کی کہ اے ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ جب بھی جمعہ کی اذان سُنتے ہیں تو سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا کرتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ اے پیارے بیٹے، (ابوامامہ) وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مدینہ منوّرہ میں بیاضہ کی بستی میں جمعہ پڑھایا۔ اس مقام کونقیع الخضمات کہا جاتا ہے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ اُس دن تمہاری تعداد کتنی تھی؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ چالیس مرد تھے۔ یہ جناب سلمہ بن فضل کی حدیث ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْجُمُعَةِ/حدیث: 1724]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ادا کئے گئے جمعہ کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے علاقے جواثی میں عبد القیس کی مسجد میں ادا کیا گیا۔ [صحيح ابن خزيمه/كِتَابُ: الْجُمُعَةِ/حدیث: 1725]