جناب ابراہیم تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے والد بزرگوار راستے میں بیٹھ کر قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ) اُنہوں نے سجدہ والی آیت تلاوت کی تو سجدہ بھی کیا۔ میں نے اُن سے عرض کی، کیا آپ راستے میں سجدہ کرتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد حرام (بیت اللہ)۔ میں نے پوچھا کہ پھر کونسی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر مسجد اقصٰی“ میں نے دریافت کیا، ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس سال، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں جہاں نماز کا وقت ہو جائے (وہیں) تم نماز پڑھ لو، وہی مسجد ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1290]
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنّت میں گھر بنائے گا۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1291]
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے پانی کا کنواں کُھدوایا، جس سے جاندار جن، انسان اور پرندے پیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اُسے اجر و ثواب عطا کرے گا۔ اور جس شخص نے چڑیا کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد بنائی، تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنّت میں گھر بنائے گا۔“ جناب یونس کے الفاظ یہ ہیں کہ ”جو درندہ یا پرندہ بھی پیئے گا ـ“ اور کہا کہ ”چڑیا کے گھونسلے جتنی مسجد“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1292]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں میں پسندیدہ ترین جگہیں اس کی مساجد ہیں۔ اور اللہ کے نزدیک بد ترین جگہیں بازار ہیں۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1293]
سیدہ عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محلّوں میں مساجد تعمر کرنے کا حُکم دیا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1294]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے بلغم یا تُھوک کو رگڑ کر صاف کر دیا پھر اُس پر زعفران منگوا کر اُس کی لیپ کردی۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، اس لئے مساجد میں زعفران لگایا جاتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1295]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ رخ ناک کی ریزش لگی دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک (غصّے کی وجہ سے) سرخ ہوگیا، تو ایک انصاری عورت آئی، اُس نے اس گندگی کو کھرچ کر صاف کردیا، اور اس کی جگہ پر زعفران سے بنی خوشبو لگا دی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کتنا بہترین کام ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت غریب ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1296]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر میری اُمّت کے اجر و ثواب پیش کیے گئے حتیٰ کہ وہ تنکا بھی جسے کوئی آدمی مسجد سے نکال دیتا ہے۔ اور مجھ پر میری اُمّت کے گناہ پیش کیے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی شخص کو قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت دی گئی (اُس نے یاد کی) پھر اُس نے اُسے بھلا دیا (اسے یاد رکھا نہ اس پر عمل کیا۔)[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1297]
اس بات کی دلیل کا بیان کہ مسجد میں کنکریاں اس لئے بچھائی جائیں گی تاکہ بارش کی وجہ سے کیچڑ اور تری (پانی) سے کپڑے خراب نہ ہوں۔ اگر اس سلسلے میں مروی حدیث صحیح ہو [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: Q1298]
جناب ابو الولید بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ مسجد میں یہ کنکریاں بچھانے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ایک رات ہم پر بارش ہوئی، تو ہم نماز پڑھنے کے لئے مسجد آئے، تو آدمی اپنے کپڑے میں کنکریاں اُٹھا کر لے آتا اُسے بچھا کر اس پر نماز پڑھ لیتا۔ پھر جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ”یہ کیا ہے؟“ تو صحابہ کرام نے صورت حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بہت اچھا بچھونا ہے۔“ چنانچہ لوگوں نے کنکریاں بچھانا شروع کر دیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا، یہ زعفران لگانا کب شروع ہوا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں ناک کی ریزش دیکھی - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کُھرچ دیا اور فرمایا: ”یہ کتنی قبیح اور گندی حرکت ہے۔“ چنانچہ جس شخص نے وہ ریزش پھینکی تھی وہ آیا اور اُس نے اُسے صاف کر دیا اور پھر اُس پر زغفران کا لیپ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس سے بہتر اور احسن حرکت ہے۔“ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، کیا وجہ ہے جب ہم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب، پاخانے) سے فارغ ہوتا ہے تو اُٹھتے وقت اُس کی طرف دیکھتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ”جو چیز تم نے حاصل کی تھی اُسکے انجام کو دیکھ۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا/حدیث: 1298]