1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ
ان اوقات کے ابواب کا مجموعہ جن میں نفل نماز پڑھنا منع ہے
805. (572) بَابُ النَّهْيِ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ بِذِكْرِ لَفْظٍ عَامٍّ مُرَادُهُ خَاصٌّ
805. صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان، عام الفاظ کے ذکر کے ساتھ جن سے مراد خاص ہے
حدیث نمبر: 1271
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، ح وَحَدَّثَنَا الصَّنْعَانِيُّ ، نَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رُفَيْعًا أَبَا الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رِجَالٌ، أَحْسَبُهُ قَالَ: مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَأَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ عُمَرُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الصَّلاةِ فِي سَاعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ" . وَقَالَ الصَّنْعَانِيُّ: قَالَ: حَدَّثَنِي نَفَرٌ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ عُمَرُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے چند افراد نے بیان کیا، اُن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھے ان سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گھڑیوں میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ نماز عصر کے بعد حتیٰ کہ سورج غروب ہو جائے اور صبح کی نماز کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے - جناب صنعانی کے الفاظ یہ ہیں کہ مجھے چند لوگوں نے حدیث بیان کی، ان میں سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1271]
تخریج الحدیث: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 1272
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ ، وَكَانَ مِنْ أَحَبِّهِمْ إِلَيَّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سنا اُن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اور وہ مجھے ان سب سے زیادہ محبوب ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1272]
تخریج الحدیث: صحيح مسلم

806. (573) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ بَعْضَ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ لَا الْمَكْتُوبَةَ وَجَمِيعَ التَّطَوُّعِ
806. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک: ”صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک کوئی نماز نہیں اور نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک بھی کوئی نماز نہیں ہے۔“ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بعض نفلی نماز ہے، فرض نماز اور تمام نوافل مراد نہیں ہیں۔
حدیث نمبر: 0
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِخْبَارُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَسِيَ صَلَاةً، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا»  دَالَّةٌ، وَإِجْمَاعُ الْمُسْلِمِينَ جَمِيعًا عَلَى أَنَّ النَّاسِيَ إِذَا نَسِيَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً، فَذَكَرَهَا بَعْدَ الصُّبْحِ أَوْ بَعْدَ الْعَصْرِ، أَنَّ عَلَيْهِ أَنْ يُصَلِّيَهَا قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ إِنْ ذَكَرَهَا بَعْدَ الصُّبْحِ، وَقَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِنْ ذَكَرَهَا بَعْدَ الْعَصْرِ؛ لِأَنَّ «النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا نَهَى عَنِ التَّطَوُّعِ بَعْدَ الصُّبْحِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ»  ، إِذْ لَوْ كَانَ نَهْيُهُ عَنْ جَمِيعِ الصَّلَاةِ فَرْضِهَا وَتَطَوُّعِهَا لَمْ يَجُزْ أَنْ تُصَلَّى فَرِيضَةٌ بَعْدَ الصُّبْحِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا لَهَا، فَذَكَرَهَا فِي أَحَدِ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ، وَالدَّلِيلُ الثَّانِي أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ بَعْضَ التَّطَوُّعِ لَا كُلَّهَا، سَأُبَيِّنُهُ فِي مَوْضِعِهِ مِنْ هَذَا الْكِتَابِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
تخریج الحدیث:

807. (574) بَابُ الزَّجْرِ عَنْ تَحَرِّي الصَّلَاةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا
807. سورج کے طلوع اور غروب ہوتے وقت قصد و کوشش کے ساتھ نماز پڑھنا منع ہے
حدیث نمبر: Q1273
وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ السَّكْتَ لَا يَكُونُ خِلَافَ النُّطْقِ وَلَا يَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ عَلَى مَا يَتَوَهَّمُهُ بَعْضُ مَنْ يَدَّعِي الْعِلْمَ، إِذْ لَوْ جَازَ الِاحْتِجَاجُ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ لَكَانَ فِي قَوْلِهِ: لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ إِبَاحَةُ الصَّلَاةِ إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَإِنْ كَانَ الْمُصَلِّي مُتَحَرِّيًا بِصَلَاتِهِ طُلُوعَ الشَّمْسِ
[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: Q1273]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 1273
نَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نَا يَحْيَى ، نَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، نَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تَحَرَّوْا بِصَلاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ، وَلا غُرُوبَهَا، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ" وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا بَرَزَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَمْسِكُوا عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى يَسْتَوِيَ، فَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَمْسِكُوا عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى يَغِيبَ" وَهَذَا حَدِيثُ بُنْدَارٍ وَقَالَ أَبُو كُرَيْبٍ:" فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بِقَرْنَيْ شَيْطَانٍ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیا ن کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نماز کی ادائیگی کے ساتھ طلوع شمس اور غروب شمس کا قصد و ارادہ نہ کرو۔ کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو اس کے برابر ہونے تک نماز سے رکے رہو۔ اور جب سورج کا کنارہ غروب ہو جائے تو اس کے مکمّل غروب ہونے تک نماز سے رک جاؤ۔ یہ بندار کی حدیث ہے اور جناب ابوکریب کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ بیشک وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1273]
تخریج الحدیث: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 1274
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُهَلَّبَ بْنَ أَبِي صُفْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لا تُصَلُّوا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ، وَلا حِينَ تَغْرُبُ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَتَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ" وَفِي خَبَرِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ وَمَعَهَا قَرْنُ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا ارْتَفَعَتْ فَارَقَهَا" دِلالَةٌ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَهَى عَنِ الصَّلاةِ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ قَدْ نَهَى عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَكَذَا خَبَرُ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ: حَتَّى تَرْتَفِعَ، خَرَّجْتُ هَذَيْنِ الْخَبَرَيْنِ فِي غَيْرِ هَذَا الْبَابِ
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج طلوع ہورہا ہو اور غروب ہورہا ہو توتم نماز مت پڑھو، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے . اور جناب صنابحی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بیشک سورج طلوع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ شیطان کے سینگ ہوتے ہیں۔ پھر جب سورج بلند ہو جاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس میں یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس گھڑی میں (سورج طلوع کے وقت) نماز پڑھنے سے منع کیا تو سورج طلوع کے بعد بھی نماز پڑھنے سے منع کیا ہے حتیٰ کہ وہ بلند ہو جائے۔ اسی طرح جناب عمرو بن عبسہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے۔ - میں نے یہ دو احادیث اس باب کے علاوہ ایک اور باب میں بھی بیان کی ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1274]
تخریج الحدیث: اسناده صحيح

808. (575) بَابُ النَّهْيِ عَنِ التَّطَوُّعِ نِصْفَ النَّهَارِ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ
808. دوپہر کے وقت نفل نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان حتیٰ کہ سورج ڈھل جائے
حدیث نمبر: Q1275
وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ أَنَّ الِاحْتِجَاجَ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ غَيْرُ جَائِزٍ، إِذْ لَوْ جَازَ الِاحْتِجَاجُ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ لَجَازَ الِاحْتِجَاجُ بِأَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَنْ يُقَالَ: قَدْ سَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَخْبَارِ عَنِ الزَّجْرِ عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ إِذَا قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ، فَيُقَالُ: الصَّلَاةُ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ جَائِزَةٌ أَوْ يُقَالُ: هَذِهِ الْأَخْبَارُ خِلَافُ الْأَخْبَارِ الَّتِي فِيهَا النَّهْيُ عَنِ الصَّلَاةِ إِذَا قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ
[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: Q1275]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 1275
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، وَأَخْبَرَنَا ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ ، أَنَّ ابْنَ وَهْبٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَجُلا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمِنْ سَاعَاتِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سَاعَةٌ تَأْمُرُنِي أَنْ لا أُصَلِّيَ فِيهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ" وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ:" حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنِي الشَّيْطَانِ، ثُمَّ الصَّلاةُ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يَنْتَصِفَ النَّهَارُ، فَإِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، إِنَّهُ حِينَئِذٍ تُسَعَّرُ جَهَنَّمُ، وَشِدَّةُ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا مَالَتِ الشَّمْسُ فَالصَّلاةُ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يُصَلَّى الْعَصْرُ فَإِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ فَأَقْصِرْ عَنِ الصَّلاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ" قَالَ يُونُسُ: قَالَ: صَلَوَاتٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ:" ثُمَّ الصَّلاةُ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى يُصَلَّى الصُّبْحُ" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَوْ جَازَ الاحْتِجَاجُ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ كَمَا يَزْعُمُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ الدَّلِيلُ عَلَى الْمَنْصُوصِ لَجَازَ أَنْ يُحْتَجَّ بِأَخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِبَاحَةُ الصَّلاةِ عِنْدَ بُرُوزِ حَاجِبِ الشَّمْسِ قَبْلَ أَنْ تَرْتَفِعَ، وَبِإِبَاحَةِ الصَّلاةِ إِذَا اسْتَوَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ تَزُولَ، وَلَكِنْ غَيْرُ جَائِزٍ عِنْدَ مَنْ يَفْهَمُ الْفِقْهَ، وَيَدَّبَّرُ أَخْبَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلا يُعَانِدُ الاحْتِجَاجَ بِالسَّكْتِ عَلَى النُّطْقِ، وَلا بِمَا يَزْعُمُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ الدَّلِيلُ عَلَى الْمَنْصُوصِ، وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَذْهَبِ مَنْ خَالَفَنَا فِي هَذَا الْجِنْسِ:" لا صَلاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ" دَالٌ عِنْدَهُ عَلَى أَنَّ الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ فَالصَّلاةُ جَائِزَةٌ، وَزَعَمَ أَنَّ هَذَا هُوَ الدَّلِيلُ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ، وَمَذْهَبُنَا خِلافُ هَذَا الأَصْلِ، نَحْنُ نَقُولُ: إِنَّ النَّصَّ أَكْثَرَ مِنَ الدَّلِيلِ، وَجَائِزٌ أَنْ يُنْهَى عَنِ الْفِعْلِ إِلَى وَقْتٍ وَغَايَةٍ، وَقَدْ لا يَكُونُ فِي النَّهْيِ عَنْ ذَلِكَ الْفِعْلِ إِلَى ذَلِكَ الْوَقْتِ وَالْغَايَةِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْفِعْلَ مُبَاحٌ بَعْدَ مُضِيِّ ذَلِكَ الْوَقْتِ وَتِلْكَ الْغَايَةِ، إِذَا وُجِدَ نَهْيٌ عَنْ ذَلِكَ الْفِعْلِ بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ، وَلَمْ يَكُنِ الْخَبَرَانِ إِذَا رُوِيَا عَلَى هَذِهِ الْقِصَّةِ مُتَهَاتِرَيْنِ مُتَكَاذِبَيْنِ مُتَنَاقِضَيْنِ عَلَى مَا يَزْعُمُ بَعْضُ مَنْ خَالَفَنَا فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ، مِنْ قَوْلِهِ جَلَّ وَعَلا: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَحَرَّمَ اللَّهُ الْمُطَلَّقَةَ ثَلاثًا عَلَى الْمُطَلِّقِ فِي نَصِّ كِتَابِهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَهِيَ إِذَا نَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ لا تَحِلُّ لَهُ وَهِيَ تَحْتَ زَوْجٍ ثَانٍ، وَقَدْ يَمُوتُ عَنْهَا أَوْ يُطَلِّقُهَا أَوْ يَنْفَسِخُ النِّكَاحُ بِبَعْضِ الْمَعَانِي الَّتِي يَنْفَسِخُ النِّكَاحُ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ قَبْلَ الْمَسِيسُ، وَلا يَحِلُّ أَيْضًا لِلزَّوْجِ الأَوَّلِ حَتَّى يَكُونَ مِنَ الزَّوْجِ الثَّانِي مَسِيسٌ، ثُمَّ يَحْدُثُ بَعْدَ ذَلِكَ بِالزَّوْجِ مَوْتٌ أَوْ طَلاقٌ أَوْ فَسْخُ نِكَاحٍ، ثُمَّ تَعْتَدُّ بِهِ، فَلَوْ كَانَ التَّحْرِيمُ إِذَا كَانَ إِلَى وَقْتِ غَايَةٍ كَالدَّلِيلِ الَّذِي لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ أَنْ يَكُونَ الْمُحَرَّمُ إِلَى وَقْتِ غَايَةٍ صَلَّى لا بَعْدَ الْوَقْتِ لا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ، لَكَانَتِ الْمُطَلَّقَةُ ثَلاثًا إِذَا تَزَوَّجَهَا زَوْجًا غَيْرُهُ حَلَّتْ لِزَوْجِهَا الأَوَّلِ قَبْلَ مَسِيسِ الثَّانِي إِيَّاهَا، وَقَبْلَ أَنْ يَحْدُثَ بِالزَّوْجِ مَوْتٌ أَوْ طَلاقٌ مِنْهُ، وَقَبْلَ أَنْ تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا وَمَنْ يَفْهَمْ أَحْكَامَ اللَّهِ يَعْلَمْ أَنَّهَا لا تَحِلُّ بَعْدُ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَحَتَّى يَكُونَ هُنَاكَ مَسِيسٌ مِنَ الزَّوْجِ إِيَّاهَا، أَوْ مَوْتُ زَوْجٍ أَوْ طَلاقُهُ، أَوِ انْفِسَاخِ النِّكَاحِ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ عِدَّةٌ تَمْضِي، هَذِهِ مَسْأَلَةٌ طَوِيلَةٌ سَأُبَيِّنُهَا فِي كِتَابِ الْعِلْمِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى، وَاعْتَرَضَ بَعْضُ مَنْ لا يُحْسِنُ الْعِلْمَ وَالْفِقْهَ، فَادَّعَى فِي هَذِهِ الآيَةِ مَا أَنْسَانَا قَوْلَ مَنْ ذَكَرْنَا قَوْلَهُ، فَزَعَمَ أَنَّ النِّكَاحَ هَهُنَا الْوَطْءُ، وَزَعَمَ أَنَّ النِّكَاحَ عَلَى مَعْنَيَيْنِ عَقْدٌ وَوَطْءٌ، وَزَعَمَ أَنَّ قَوْلَهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ إِنَّمَا أَرَادَ الْوَطْءَ، وَهَذِهِ فَضِيحَةٌ لَمْ نَسْمَعْ عَرَبِيًّا قَطُّ مِمَّنْ شَاهَدْنَاهُمْ، وَلا حُكِيَ لَنَا عَنْ أَحَدٍ تَقَدَّمَنَا مِمَّنْ يُحْسِنُ لُغَةَ الْعَرَبِ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ، وَلا مِمَّنْ قَبْلَهُمْ أَطْلَقَ هَذِهِ اللَّفْظَةَ، أَنْ يَقُولَ جَامَعَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، وَلا سَمِعْنَا أَحَدًا يُجِيزُ أَنْ يُقَالَ، وَطِئَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، وَإِنَّمَا أَضَافَ إِلَيْهَا النِّكَاحَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ كَمَا تَقُولُ الْعَرَبُ، تَزَوَّجِتِ الْمَرْأَةُ زَوْجًا، وَلَمْ نَسْمَعْ عَرَبِيًّا يَقُولُ وَطِئَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا وَلا جَامَعَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا، وَمَعْنَى الآيَةِ عَلَى مَا أَعْلَمْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ يُحَرِّمُ الشَّيْءَ فِي كِتَابِهِ إِلَى وَقْتٍ وَغَايَةٍ، وَقَدْ يَكُونُ ذَلِكَ الشَّيْءُ حَرَامًا بَعْدَ ذَلِكَ الْوَقْتِ أَيْضًا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو اُس نے عرض کی کہ اے اﷲ کے رسول، کیا رات اور دن کی گھڑیوں میں کوئی ایسی گھڑی بھی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز نہ پڑھنے کا حُکم دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جب تم صبح کی نماز پڑھ لو تو سورج طلوع ہونے تک نماز پڑھنے سے رکے رہو- جناب ابن عبدالحکم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حتیٰ کہ سورج بلند ہو جائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ پھر (اس کے بعد) نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور شریک ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے حتیٰ کہ دوپہر ہو جائے۔ چنانچہ جب دوپہر ہو جائے تو تم سورج ڈھلنے تک نماز پڑھنے سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنّم بھڑکائی جاتی ہے اور شدید گرمی جہنّم کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے - اور جب سورج ڈھل جائے تو (اُس وقت کی) نماز میں فرشتے حاضر ہوتے اور شریک ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ عصر کی نماز پڑھی جائے۔ پھر جب تم عصر کی نماز پڑھ لو تو پھر سورج غروب ہونے تک نماز سے رکے رہو۔ جناب یونس کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نمازیں (اس وقت قبول ہوتی ہیں) اور ابن عبدالحکم کے الفاظ یہ ہیں کہ پھر نماز میں فرشتے شریک ہوتے ہیں، اس میں حاضر ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے حتیٰ کہ صبح کی نماز ادا کی جائے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر خاموشی سے نطق پر دلیل لینا جائز ہوتا جیسا کہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ خاموشی منصوص پر دلیل ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث سے دلیل لینا جائز ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے - لہٰذا سورج کا کنارہ نکل آنے پر اور اُس کے بلند ہونے سے پہلے نماز پڑھنا جائز ہوتا - اور جب سورج آسمان کے وسط میں برابر ہو جائے تو اس کے ڈھلنے سے پہلے بھی نماز جائز ہوتی۔ لیکن یہ اس شخص کے نزدیک جائز نہیں ہے جو دینی فہم و فراست رکھتا ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں غور و فکر کرنے والا ہو اور خاموشی سے نطق کے خلاف دلیل لینے میں دھرم اور عناد پرست نہ ہو اور نہ وہ خاموشی کو منصو ص کی دلیل قرار دینے پر مصر ہو جیسا کہ بعض اہل علم کا خیا ل ہے۔ اس مسئلہ میں ہمارے مخالفین کے مذہب کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک کہ صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک کوئی نماز نہیں ہے ان کے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز جائز ہو جاتی ہے۔ اور ان کا خیال ہے کہ یہ ایسی دلیل ہے جس میں دوسرا کوئی احتمال نہیں ہے۔ اور ہمارا مذہب اس اصل کے خلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بلاشبہ نص کی قوت اور حیثیت دلیل کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اور یہ جائز ہے کہ ایک کام سے ایک وقت اور مدّت تک روک دیا جائے اور اس مخصوص کام کی مخصوص مدّت و وقت تک ممانعت میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ وقت اور مدّت گزر جانے پر وہ کام جا ئز ہو گا۔ جبکہ اس وقت کے گزر جانے کے بعد اس کی منع کی دلیل موجود ہو اور اس مسئلہ میں مروی دونوں روایات باہم متضاد، متناقض اور ایک دوسرے کی نفی کرنے والی بھی نہ ہوں - جیسا کہ اسی مسئلہ میں ہمارے بعض مخالفین کا خیال ہے۔ اسی قسم سے یہ مسئلہ بھی ہے جسے میں اپنی کتاب معانی القرآن میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے «‏‏‏‏فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ‏‏‏‏ [ سورة البقرة: 230 ] پھر اگر وہ (خاوند) اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ (عورت) اُس کے لئے حلال نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکا ح کرے۔ لہٰذا قرآن مجید کی اس نص کے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں والی بیوی کو اُس کے خاوند پر حرام قرار دیا ہے حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے خاوند سے نکا ح کرلے۔ اور جب وہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکا ح کرے گی تو وہ اُس شخص کے نکا ح میں ہوتے ہوئے پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی - اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بستری کرنے سے پہلے ہی وہ شخص فوت ہو جائے یا اُسے طلاق دے دے یا نکا ح کسی ایسی وجہ سے فسخ ہو جائے جن کی بنیا د پر نکا ح فسخ ہو جاتا ہے۔ تو ایسی صورت میں وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی حتیٰ کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری کرلے - پھر خاوند کے فوت ہونے، طلاق دینے یا نکا ح فسخ ہونے کی صورت میں وہ عدت گزارے گی (پھر پہلے خاوند سے نکا ح کرنا جائز ہو گا) چنانچہ اگر یہ حرمت ایک محدود وقت تک ہو، اس دلیل کی طرح جس میں دوسرا کوئی احتمال نہیں تو حرام کی گئی چیز ایک مقرر وقت تک ہوتی اور وہ نماز پڑھتا (اس کے وقت ہی میں) وقت کے بعد نہیں۔ اس میں دوسرا احتمال نہ ہوتا - پس تین طلاقوں والی عورت جب دوسرے خاوند سے شادی کرلیتی تو وہ پہلے خاوند کے لئے دوسرے خادند کی ہم بستری سے پہلے ہی حلال ہو جاتی اور دوسرے خاوند کی وفات یا اس سے طلاق اور اس کی عدت گزرنے سے پہلے ہی پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاتی جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ وہ عورت (پہلے خاوند کے لئے) حلال نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ دوسرے خاوند سے شادی کرلے اور وہ اس عورت سے ہم بستری کرلے۔ پھر وہ خاوند فوت ہو جائے، یا وہ طلاق دیدے یا ان کا نکا ح فسخ ہو جائے، پھر اس کی عدت پوری ہو جائے۔ عنقریب میں یہ طویل مسئلہ کتاب العلم میں بیان کر دوں گا، ان شاء اللہ، علم و فقہ سے ناواقف بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے اور اس آیت میں ایسا دعویٰ کیا ہے، جس نے ہمیں گزشتہ قول بھلا دیا ہے - اس کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں نکا ح سے مراد وطی ہے۔ نیز اس کا دعویٰ ہے کہ نکا ح کے دو معنی ہیں، 1-عقد یعنی نکا ح کرنا، 2- وطی کرنا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (حتیٰ کہ وہ دوسرے خاوند سے نکا ح کرلے) سے مراد وطی ہے (کہ وہ عورت کسی دوسرے خاوند سے وطی و ہم بستری کرلے) یہ ایسی شرم ناک اور رسوا کن بات ہے جو ہم نے کسی عربی شخص سے نہیں سنی، جن کو ہم نے دیکھا ہے اور ان کا عہد پایا ہے - اور نہ ہمیں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم سے پہلے کسی شخص نے ایسی معیوب بات کی ہو جو اہل اسلام میں سے لغت عرب کو جانتا ہو اور اس میں مہارت رکھتا ہو۔ پرانے لوگوں نے بھی اس لفظ کا اطلاق اس طرح نہیں کیا کہ جَامَعَتِ الْمَرأةُ َزَوْجَهَا (عورت نے اپنے خاوند سے ہم بستری کی) ہم نے کسی کو نہیں سنا کہ وہ یہ کہنا درست قرار دیتا ہو کہ وَطِئَتِ الْمَرأةُ َزَوْجَهَا (عورت نے اپنے خاوند سے وطی کی) بلکہ اس موقع پر اس کی طرف نکا ح کی نسبت کی جاتی ہے جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں کہ «‏‏‏‏تَزَوَّجَتِ الْمَرأةُ َزَوْجَهَا» ‏‏‏‏ (عورت نے خاوند سے شادی کی) ہم نے کسی عربی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ عورت نے اپنے خاوند سے وطی کی یا عورت نے اپنے خاوند کے ساتھ جماع وہم بستری کی - اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں کسی چیز کو ایک وقت اور مدّت تک حرام قرار دیتا ہے، اور کبھی وہ چیز اس وقت کے بعد بھی حرام ہوتی ہے ـ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1275]
تخریج الحدیث:

809. (576) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ نَهْيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ نَهْيٌ خَاصٌّ لَا عَامٌّ،
809. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازِ صبح کے بعد طلوع شمس تک اور نماز عصر کے بعد غروب شمس تک نماز پڑھنے سے منع کرنا، یہ ایک خاص ممانعت ہے، عام نہیں،
حدیث نمبر: Q1276
إِنَّمَا أَرَادَ بَعْضَ التَّطَوُّعِ لَا كُلَّهُ، وَقَدْ أَعْلَمْتُ قَبْلُ فِي الْبَابِ الَّذِي تَقَدَّمَ أَنَّهُ لَمْ يُرِدْ بِهَذَا النَّهْيِ نَهْيًا عَنْ صَلَاةِ الْفَرِيضَةِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بعض نفلی نمازوں سے منع کرنا تھا تمام نفلی نمازوں سے منع کرنا مراد نہیں۔ اور گزشتہ باب میں یہ بھی بیان کرچکا ہوں کہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد فرض نماز سے منع کرنا بھی نہیں تھا [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: Q1276]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 1276
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت اس لئے پڑھی تھیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے بعد کوئی (سنّت یا نفل) نماز نہیں پڑھ سکے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ/حدیث: 1276]
تخریج الحدیث: اسناده حسن


1    2    3    Next