سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھادیں جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 845]
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جو میں اپنی نماز اور اپنے گھر میں مانگا کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہ دعا مانگا کرو «اللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَبِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ» ”اے اللہ، بیشک میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیے ہیں اور تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیں ہے، لہٰذا تو اپنے پاس سے مجھے مغفرت و بخشش عطا فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بہت زیادہ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 846]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سورہ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ» یعنی سورة النصر آخر تک نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز میں یہ تسبیح پڑھتے ہوئے سنا، «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي» ”اے اللہ، تو پاک ہے ساتھ اپنی تعریفوں کے، اے اللہ، مجھے معاف فرما ـ“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 847]
حضرت ابومالک اشجعی اپنے والد گرامی سے روایت کر تے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صبح کے وقت حاضر ہوتے چنانچہ مرد و خواتین آتے اور عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول، جب میں نماز پڑھوں تو کیسے دعا مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”اس طرح مانگا کرو «اللّٰهُمَّ اغْفِرْلِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي» ”اے اللہ، مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت عطا کر، مجھے عافیت سے نواز دے اور مجھے رزق عطا فرما۔“ تو تیرے لئے تیری دنیا اور آخرت (کی ہر خیر و بھلائی) جمع کر دی جائے گی۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 848]
کیونکہ تمام گناہوں کا حساب اور ان کے بارے میں تحقیق و تفشیش گناہ گار کو ہلاک و برباد کردے گی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: Q849]
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں یہ دیا مانگتے ہوئے سنا، «اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابَاً يَسِيرَاً» ”اے اللہ، مجھ سے آسان حساب لینا“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آسان حساب کیسا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے کے اعمال نامے کو دیکھ کر (اس کے گناہوں سے) درگزر کیا جائے گا۔ کیونکہ اے عائشہ رضی اللہ عنہا، اس دن جس سے تفصیلی حساب لیا گیا وہ ہلاک ہو جائے گا۔ اور مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے ذریعے اُس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ کانٹا جو اُسے چبھتا ہے، (وہ بھی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے)۔“ دونوں راویوں نے ایک جیسے الفاظ بیان کیے ہیں۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 849]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مجھے کچھ کلمات سکھا دیں جو میں اپنی نماز میں بطور دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس مرتبہ «سُبْحَانَ اللَٰه» دس مرتبہ «الحَمْدُ لِلَٰه» اور دس دفعہ «اللهُ أَكْبَرُ» پڑھ لیا کرو، پھر اپنی حاجت و ضرورت کا سوال کرو تو وہ فرمائے گا کہ ہاں، ہاں (تمہاری دعا و التجا قبول ہے۔)[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 850]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ ”مجھے تم دکھائے گئے ہو کہ تم قبروں میں دجّال کے فتنے کی طرح آزمائے جارہے ہو۔ حضرت عمرہ کہتی ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نماز میں یہ دیا مانگتے ہوئے سنا کرتی تھی۔ «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» ۔ ”اے اﷲ، میں جہنم کے عذاب اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 851]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے، «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ» ”اے اللہ، میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور میں دجّال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ، میں گناہ میں ملوث ہونے اور قرض میں پھنسنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”ایک کہنے والے نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرض سے کس قدر زیادہ پناہ مانگتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک آدمی جب مقروض ہوجاتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 852]
544. فرض نماز میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنا جائز ہے جبکہ نمازی کوئی ایسی چیز دیکھے یا سنے کہ جس پر حمد و ثناء بیان کرنا واجب ہو یا وہ اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہتا ہو۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو عمرو بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، پھر اُن کے پاس ان کی صلح کرانے کے لئے تشریف لائے، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا کہ ”اے بلال جب نماز عصر کا وقت ہو جائے اور میں واپس نہ آؤں تو ابوبکر کو کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔“ چنانچہ جب نماز عصر کا وقت ہوا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی، پھر اقامت کہی، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آگے بڑھیے، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کر دی، اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آگئے اور لوگوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے آگے بڑھے یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، صحابی کہتے ہیں کہ لوگوں نے تالی بجائی اور سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ جب نماز شروع کر دیتے تو اِدھر اُدھر توجہ نہیں دیتے تھے، پس پھر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ تالی مسلسل بج رہی ہے تو اُنہوں نے پھرنا چاہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ نماز جاری رکھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ”نماز جاری رکھو“”پر کچھ دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے رہے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایڑیوں کے بل چل کر پیچھے آگئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمّل کرلی تو فرمایا: ”اے ابوبکر، جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو پھرتمہیں نماز جاری رکھنے سے کس چیز نے منع کیا؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: ”جب تمہیں تمہاری نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو مرد «سُبْحَانَ اللَٰه» کہیں اور عورتیں تالی بجائیں“۔ جناب ابن ابی حازم کی رویت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اس طرح اشارہ کیا اور انہیں نماز جاری رکھنے کا حُکم دیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور «الحَمْدُ لِلَٰه» کہا، پھر الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔ جناب عبدالاعلی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو (یعنی نماز جاری رکھو) تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اپنے ہاتھ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے لوٹ آئے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے دوسروں کے مقابلہ میں حدیث کے الفاظ میں اضافہ بیان کیا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْكَلَامِ الْمُبَاحِ فِي الصَّلَاةِ وَالدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ، وَمَسْأَلَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا يُضَاهِي هَذَا وَيُقَارِبُهُ/حدیث: 853]