الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب النَّذْرِ
نذر کے احکام
3. باب لاَ وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلاَ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ الْعَبْدُ:
3. باب: ایسی نذر جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور جس کو پورا کرنے کی طاقت نہ ہو اس کو پورا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4245
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ واللفظ لزهير، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِى عُقَيْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ وَأَصَابُوا مَعَهُ الْعَضْبَاءَ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ، فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ، فَقَالَ: إِعْظَامًا لِذَلِكَ أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَقِيقًا فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟، قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَادَاهُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: إِنِّي جَائِعٌ، فَأَطْعِمْنِي وَظَمْآنُ فَأَسْقِنِي، قَالَ: هَذِهِ حَاجَتُكَ فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَأُسِرَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَأُصِيبَتِ الْعَضْبَاءُ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ وَكَانَ الْقَوْمُ يُرِيحُونَ نَعَمَهُمْ بَيْنَ يَدَيْ بُيُوتِهِمْ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتِ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا، فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ، قَالَ: وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ، فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا ثُمَّ زَجَرَتْهَا، فَانْطَلَقَتْ وَنَذِرُوا بِهَا، فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، قَالَ: وَنَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا: الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا نَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ بِئْسَمَا جَزَتْهَا نَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةٍ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ " وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ،
مجھے زہیر بن حرب اور علی بن حجر سعدی نے حدیث بیان کی۔۔ الفاظ زہیر کے ہیں۔۔ ان دونوں نے کہا ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ایوب نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ثقیف، بنو عقیل کے حلیف تھے، ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو قید کر لیا، (بدلے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا اور انہوں نے اس کے ساتھ اونٹنی عضباء بھی حاصل کر لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کے پاس سے گزرے، وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا: اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: آپ نے مجھے کس وجہ سے پکڑا ہوا اور حاجیوں (کی سواریوں) سے سبقت لے جانے والی اونٹنی کو کیوں پکڑا ہے؟ آپ نے۔۔ اس معاملے کو سنگین خیال کرتے ہوئے۔۔ جواب دیا: "میں نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کی بنا پر (اس کے ازالے کے لیے) پکڑا ہے۔" پھر آپ وہاں سے پلٹے تو اس نے (پھر سے) آپ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رحم کرنے والے، نرم دل تھے۔پھر سے آپ اس کے پاس واپس آئے اور فرمایا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: (اب) میں مسلمان ہوں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے مالک آپ تھے (آزاد تھے) تو تم پوری بھلائی حاصل کر لیتے (اب بھی ملے گی لیکن پوری نہ ہو گی۔) " پھر آپ پلٹے تو اس نے آپ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ (پھر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: میں بھوکا ہوں مجھے (کھانا) کھلائیے اور پیاسا ہوں مجھے (پانی) پلائیے۔ آپ نے فرمایا: " (ہاں) یہ تمہاری (فورا پوری کی جانے والی) ضرورت ہے۔" اس کے بعد (معاملات طے کر کے) اسے دونوں آدمیوں کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا۔ (اونٹنی پیچھے رہ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئی۔ لیکن مشرکین نے دوبارہ حملے کر کے پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔) کہا: (بعد میں، غزوہ ذات القرد کے موقع پر، مدینہ پر حملے کے دوران) ایک انصاری عورت قید کر لی گئی اور عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، عورت بندھنوں میں (جکڑی ہوئی) تھی۔ لوگ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے رات کو آرام (کرنے کے لیے بٹھا) دیتے تھے، ایک رات وہ (خاتون) اچانک بیڑیوں (بندھنوں) سے نکل بھاگی اور اونٹوں کے پاس آئی، وہ (سواری کے لیے) جس اونٹ کے بھی قریب جاتی وہ بلبلانے لگتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی حتی کہ وہ عضباء تک پہنچ گئی تو وہ نہ بلبلائی، کہا: وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی تو وہ اس کی پیٹھ کے پچھلے حصے پر بیٹھی، اور اسے دوڑایا تو وہ چل پڑی۔ لوگوں کو اس (کے جانے) کا علم ہو گیا، انہوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن اس نے انہیں بے بس کر دیا۔ کہا: اس عورت نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی پر اسے نجات دی تو وہ اسے (اللہ کی رضا کے لیے) نحر کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی، لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے: یہ عضباء ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اس نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اسے اس اونٹنی پر نجات عطا فرما دی تو وہ اس اونٹنی کو (اللہ کی راہ میں) نحر کر دے گی۔ اس پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سبحان اللہ! اس عورت نے اسے جو بدلہ دیا وہ کتنا برا ہے! اس نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو اس اونٹنی پر نجات دے دی تو وہ اسے ذبح کر دے گی، معصیت میں نذر پوری نہیں کی جا سکتی، نہ ہی اس چیز میں جس کا بندہ مالک نہ ہو۔" ابن حجر کی روایت میں ہے: "اللہ کی معصیت میں کوئی نذر (جائز) نہیں
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو ثقیف، بنو عقیل کے حلیف (دوست) تھے، اور بنو ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ساتھیوں کو قیدی بنا لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے ایک بنو عقیل کے آدمی کو قید کر لیا، اور اس کے ساتھ عضباء نامی اونٹنی بھی پکڑ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس اس حال میں پہنچے کہ وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا، اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہو گئے، اور پوچھا، تیرا کیا معاملہ ہے؟ تو اس نے کہا، آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہے؟ اور سب حاجیوں سے سبقت لے جانے والی (عضباء) کو کیوں پکڑا ہے، تو آپ نے اس کی بات کو ناگوار خیال کرتے ہوئے (کہ وہ سمجھتا ہے، میں نے بدعہدی کی ہے) فرمایا: میں نے تجھے تیرے حلیفوں بنو ثقیف کے جرم میں پکڑا ہے۔ پھر اس کے پاس سے پلٹ گئے، تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی، اور کہا، اے محمد! اے محمد! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مہربان، نرم دل تھے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف لوٹ آئے اور اس سے پوچھا، تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا، میں مسلمان ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو یہ بات اس وقت کہتا جب تو اپنا آپ مالک تھا، یعنی گرفتار نہیں ہوا تھا، تو تو مکمل طور (دنیا و آخرت) کامیاب ہو جاتا۔ پھر آپ وہاں سے چل دئیے، تو اس نے آپ کو آواز دی، اے محمد! اے محمد! آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، اور اس سے پوچھا، کیا بات ہے؟ اس نے کہا، میں بھوکا ہوں، مجھے کھلائیے، اور پیاسا ہوں، مجھے پلائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیری واقعی ضرورت ہے؟ (ہم اسے پورا کرتے ہیں) پھر اس کو دو صحابہ کے عوض چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عمران بیان کرتے ہیں (بعد میں) ایک انصاری عورت گرفتار کر لی گئی، اور (دشمن نے) عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی، وہ عورت بندھی ہوئی تھی، اور یہ لوگ اپنے اونٹوں کو رات کو آرام کے لیے اپنے گھروں کے سامنے باندھتے تھے، تو ایک رات یہ عورت بندھن سے چھوٹ گئی اور اونٹوں کے پاس آئی (تاکہ سوار ہو کر وہاں سے نکل بھاگے) تو وہ جس اونٹ کے قریب ہونے لگتی، وہ بلبلا اٹھتا، تو وہ اسے چھوڑ دیتی، حتی کہ وہ عضباء کے پاس پہنچ گئی، تو وہ نہ بلبلائی، اور بقول راوی رام شدہ، سدھائی ہوئی اونٹنی تھی، تو وہ اس کے پچھلے حصے پر بیٹھ گئی اور اسے ڈانٹا تو وہ چل پڑی، لوگوں کو اس کا پتہ چل گیا، انہوں نے اس کا تعاقب کیا، لیکن اس نے ان کو بےبس کر دیا، راوی کہتے ہیں، اس عورت نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی، اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اس اونٹنی پر نجات بخش دی تو وہ اسے نحر کر دے گی، تو جب وہ مدینہ پہنچی، لوگوں نے اسے دیکھا، تو کہنے لگے، یہ تو عضباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے، تو اس عورت نے کہا، میں نے نذر مانی ہے، اگر اللہ نے اسے اس پر خلاصی بخشی، تو وہ اسے نحر کر دے گی، لوگوں نے آ کر اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! اس نے اسے بہت برا بدلہ دیا ہے، کہ اللہ کے لیے نذر مانی ہے، اگر اللہ نے اسے اس پر نجات بخشی تو وہ اسے نحر کر دے گی، گناہ کے لیے مانی جانے والی نذر پوری نہیں کی جا سکتی، اور نہ اس چیز کی نذر جس کا انسان فی الحال مالک نہیں ہے اور ابن حجر کی روایت ہے، اللہ کی نافرمانی کی نذر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4246
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيِّ كِلَاهُمَا، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَفِي حَدِيثِ حَمَّادٍ، قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، وَفِي حَدِيثِهِ أَيْضًا، فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ وَفِي حَدِيثِ الثَّقَفِيِّ وَهِيَ نَاقَةٌ مُدَرَّبَةٌ.
) حماد بن زید اور عبدالوہاب ثفقی دونوں نے ایوب سے اسی سند کے ساتھ اس کے ہم معنی حدیث بیان کی، حماد کی حدیث میں ہے: انہوں نے کہا: عضباء اونٹنی بنو عقیل کے ایک آدمی کی تھی اور وہ حاجیوں کی سواریوں میں سب سے آگے رہنے والی اونٹنیوں میں سے تھی (تیز رفتار تھی۔) اور ان کی حدیث میں یہ بھی ہے: اور وہ (قیدی عورت) سدھائی ہوئی مَشاق اونٹنی پر (بیٹھ کر) آئی، اور ثقفی کی حدیث میں ہے: وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی۔
امام صاحب اپنے تین (3) اساتذہ کی سندوں سے ایوب کی مذکورہ بالا سند ہی سے بیان کرتے ہیں۔ حماد کی حدیث میں ہے، عضباء، بنو عقیل کے آدمی کی تھی اور حاجیوں کو سب سے پہلے پہنچانے والی اونٹنیوں میں سے تھی، اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ وہ عورت سدھائی، تربیت یافتہ اونٹنی کے پاس پہنچی اور ثقفی کی روایت میں ہے، وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

4. باب مَنْ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ إِلَى الْكَعْبَةِ:
4. باب: بیت اللہ کی طرف پیدل چلنے کی نذر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4247
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، حَدَّثَنِي ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى شَيْخًا يُهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ، فَقَالَ: " مَا بَالُ هَذَا؟ قَالُوا: نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ لَغَنِيٌّ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ ".
‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کے بیچ میں تکیہ لگائے جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اس نے نذر کی ہے پیدل چلنے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بے پرواہ ہے اسے عذاب دینے سے اور حکم کیا اس کو سوار ہو جانے کا۔ [صحيح مسلم/كِتَاب النَّذْرِ/حدیث: 4247]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4248
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ شَيْخًا يَمْشِي بَيْنَ ابْنَيْهِ يَتَوَكَّأُ عَلَيْهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَأْنُ هَذَا؟، قَالَ ابْنَاهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْكَبْ أَيُّهَا الشَّيْخُ، فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكَ وَعَنْ نَذْرِكَ "، وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، وَابْنِ حُجْرٍ،
یحییٰ بن ایوب، قتیبہ اور ابن حجر نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں اسماعیل بن جعفر نے عمرو بن ابی عمرو سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالرحمان اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوڑھے آدمی کو ملے جو اپنے دو بیٹوں کے درمیان، ان کا سہارا لیے چل رہا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "اس کا معاملہ کیا ہے؟" اس کے دونوں بیٹوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کے ذمے نذر تھی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے بزرگ! سوار ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ تم سے اور تمہاری نذر سے بے نیاز ہے (اسے اس کی ضرورت نہیں۔)۔۔ الفاظ قتیبہ اور ابن حجر کے ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھا آدمی دیکھا، جو اپنے دو بیٹوں کے درمیان ان پر ٹیک لگا کر چل رہا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، اس کا کیا معاملہ ہے؟ اس کے دونوں بیٹوں نے کہا، اے اللہ کے رسول! اس نے نذر مانی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بوڑھے سوار ہو جا، کیونکہ اللہ تعالیٰ تجھ سے اور تیری نذر سے بے نیاز ہے۔ یہ الفاظ قتیبہ اور ابن حجر کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4249
عبدالعزیز دراوردی نے عمرو بن ابی عمرو سے، اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی
امام صاحب مذکورہ بالا حدیث ایک اور استاد سے عمرو بن ابی عمرو ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4250
وحَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى بْنِ صَالِحٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ يَعْنِي ابْنَ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ "،
مفضل بن فضالہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) مجھے عبداللہ بن عیاش نے یزید بن ابی حبیب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوالخیر سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میری بہن نے ننگے پاؤں پیدل چل کر بیت اللہ جانے کی نذر مانی اور مجھ سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے فتویٰ لوں، میں نے آپ سے فتویٰ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ (بقدر استطاعت) پیدل چلے اور سوار ہو
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ واقعہ یہ ہے کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ ننگے پاؤں پیدل چل کر بیت اللہ جائے گی، تو اس نے مجھے کہا، کہ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر یہ مسئلہ بتاؤں، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اس پر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ پیدل چلے (اور تھک جائے) تو سوار ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4251
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَبَا الْخَيْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: نَذَرَتْ أُخْتِي، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُفَضَّلٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ حَافِيَةً، وَزَادَ وَكَانَ أَبُو الْخَيْرِ لَا يُفَارِقُ عُقْبَةَ،
4251. عبدالرزاق نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ابن جریج نے خبر دی، مجھے سعید بن ابی ایوب نے خبر دی، انہیں یزید بن ابی حبیب نے خبر دی، انہیں ابوالخیر نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے کہا: میری بہن نے نذر مانی۔۔ آگے مفضل کی حدیث کی طرح بیان کیا اور انہوں نے حدیث میں ننگے پاؤں کا تذکرہ نہیں کیا اور یہ اضافہ کیا: اور ابوالخیر (حصول علم کی خاطر) حضرت عقبہ ؓ سے جدا نہیں ہوتے تھے۔
حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی، آگے مُفضل کی مذکورہ بالا حدیث کی طرح ہے، لیکن اس حدیث میں ننگے پاؤں چلنے کا ذکر نہیں ہے، اور یہ اضافہ ہے کہ عقبہ کے شاگرد ابو الخیر ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 4252
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ أَخْبَرَهُ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.
رَوح بن عبادہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ابن جریج نے حدیث سنائی، (کہا:) مجھے یحییٰ بن ایوب نے خبر دی کہ انہیں یزید بن ابی حبیب نے اسی سند سے خبر دی۔۔ عبدالرزاق کی حدیث کے مانند
مذکورہ بالا حدیث امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے یزید بن ابی حبیب ہی سے بیان کرتے ہیں، جیسا کہ عبدالرزاق نے حدیث بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

5. باب فِي كَفَّارَةِ النَّذْرِ:
5. باب: نذر کے کفارے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4253
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ يُونُسُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَفَّارَةُ النَّذْرِ كَفَّارَةُ الْيَمِينِ ".
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: "نذر کا کفارہ (وہی ہے جو) قسم کا کفارہ ہے
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر کا کفارہ، قسم والا کفارہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة


Previous    1    2