سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ترنج کی مانند ہے جس کی خوشبو بھی عمدہ اور ذائقہ بھی اچھا۔ اور اس مو من کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی مانند ہے جس کا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن خوشبو نہیں ہوتی۔ اور اس نافرمان کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحان کی مانند ہے جس کی خوشبو عمده لیکن ذائقہ کڑوا۔ اور اس نافرمان کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا حنظل (اندرائن) کی مانند ہے جس کا ذائقہ کڑوا اور خوشبو بھی ندارد۔ اور اچھے ساتھی کی مثال کستوری والے کی مانند ہے اگر تمہیں اس سے کچھ بھی نہ ملے تو اس کی خوشبو تجھے (ضرور) پہنچے گی اور برے ساتھی کی مثال بھٹی دھونکنے والے کی مانند ہے اگر تجھے اسے پہنچنے والی تکلیف میں سے کچھ بھی نہ پہنچے تو دھواں (ضرور) پہنچے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1381]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھے ساتھی کی مثال عطرفروش کی مانند ہے اگر تمہیں اس کے عطر میں سے کچھ نہ بھی ملے تو اس کی خوشبو (ضرور) پہنچے گی اور برے دوست کی مثال لوہار کی مانند ہے اگر اس کی چنگاریوں نے تمہیں نہ جلایا تو اس کا دھواں تمہیں (ضرور) ستائے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1382]
حسن کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نماز کی مثال ترازو کی مانند ہے جو اسے پورا ر کھے گا وہ پورا ثواب پائے گا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1383]
تخریج الحدیث: «مرسل ضعيف، الزهد لابن المبارك: 1190» اسے حسن بصری تابعی نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور تمام بن نجیح ضعیف ہے۔
851. میری اور دنیا کی مثال بس ایک سوار کی مانند ہے جس نے سخت گرم دن میں دو پہر کے وقت کسی درخت کے سائے میں (کچھ دیر) آرام کیا پھر اسے چھوڑ دیا اور چل پڑا
سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور دنیا کی مثال بس ایک سوار کی مانند ہے جس نے سخت گرم دن میں دو پہر کے وقت کسی درخت کے سائے میں (کچھ دیر) آرام کیا پھر اسے چھوڑ دیا اور چل پڑا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1384]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف،وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7954، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2377، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4109، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3785، 4292، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 275» ابراہیم نخعی مدلس کا عنعنہ ہے۔
852. آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی سبابہ انگلی ڈبوئے پھر (نکال کر) دیکھے کہ وہ کتنے پانی کے ساتھ واپس لوٹتی ہے
بنی قہر کے بھائی سیدنا مستورد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی سبابہ انگلی ڈبوئے پھر (نکال کر) دیکھے کہ وہ کتنے پانی کے ساتھ واپس لوٹتی ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1385]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2858، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4330، 6159، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6572، 7993، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11797، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2323، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4108، والحميدي فى «مسنده» برقم: 878،وأحمد فى «مسنده» برقم: 18291»
سیدنا مستورد قہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص سمندر میں اپنی سبابہ انگلی ڈبوئے پھر (نکال کر) دیکھے کہ وہ کتنے پانی کے ساتھ واپس لوٹتی ہے۔“ اسے مسلم بن حجاج نے (محدثین کی) ایک جماعت سے روایت کیا ہے جن میں محمد بن حاتم بھی ہیں اور یہ الفاظ انہی کے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمیں یحییٰ بن سعید نے بیان کیا انہوں نے کہا: کہ ہمیں اسماعیل بن ابی خالد نے اپنی سند کے ساتھ اس طرح بیان کیا اور کہا: ”جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی یہ انگلی ڈبوئے“ اور یحییٰ بن سعید نے سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1386]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2858، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4330، 6159، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6572، 7993، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11797، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2323، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4108، والحميدي فى «مسنده» برقم: 878،وأحمد فى «مسنده» برقم: 18291»
سیدنا مستور د فہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخرت کے مقابلے میں دنیا ایسے ہے جیسے تم میں ہم سے کوئی شخص سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے پھر (نکال کر) دیکھے کہ وہ کتنے پانی کے ساتھ واپس لوٹتی ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1387]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2858، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4330، 6159، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6572، 7993، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11797، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2323، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4108، والحميدي فى «مسنده» برقم: 878،وأحمد فى «مسنده» برقم: 18291»
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے شہد بنا دیتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شہد بنانے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”کسی نیک عمل کی طرف اسے ہدایت فرما دیتا ہے پھر اس پر اس کی روح قبض کر لیتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1388]
تخریج الحدیث: إسناده ضعيف جدا، علی بن یزید سخت ضعیف ہے۔
سیدنا ابوعنبسہ خولانی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ جب کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے شہد بنا دیتا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شہد بنانے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”اس کے لیے نیک عمل (کا دروازہ) کھول دیتا ہے۔ پھر اس (نیک عمل) پر اس کی روح قبض کر لیتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1389]
سیدنا عمرو بن حمق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے کام کراتا ہے۔“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ اس سے کس طرح کام کراتا ہے؟ فرمایا: ”اس کی موت سے پہلے نیک عمل کی طرف اسے ہدایت فرما دیتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1390]