یہ روایت اعمش سے ان کی سند کے ساتھ ایک دوسرے طریق سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں ہے: ”لوگو! میں (اللہ تعالیٰ ٰ کی طرف سے) بھیجی ہوئی رحمت ہوں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1161]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابن ابى شيبة: 32442، ابن الاعرابي: 2452، والطبراني فى «الصغير» برقم: 264، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 101» اعمش مدلس کا عنعنہ ہے۔
سیدنا على بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک (مسئلہ) پوچھ لینا لاعلمی کا علاج ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1162]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الاحاد والمثاني: 3130» عمر بن عبد اللہ بن علی کے حالات نہیں ملے اگر یہ عبید اللہ بن محمد بن عمر بن علی ہے جیسا کہ بعض نسخوں میں ہے تو بھی مذکورہ روایت ضعیف ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور انہوں نے اس حدیث کو طوالت کے ساتھ بیان کیا اور اس میں یہ بھی تھا کہ یہ بات رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، جب انہیں مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہ پوچھا:؟ بے شک (مسئلہ) پوچھ لینا لا علمی کا علاج ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1163]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو داود: 336، دار قطني: 719، شرح السنة: 313» زبیر بن خریق ضعیف ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے صحابہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے کہ اچانک سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے اور آ کر کھڑے ہو گئے، سلام کیا پھر بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ دیکھنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے چہروں کو دیکھنے لگے کہ کون ان کے لیے وسعت پیدا کرتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب بیٹھے تھے وہ اپنی جگہ سے ہٹے اور کہا: ابوالحسن! آپ یہاں بیٹھ جائیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان بیٹھ گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی دیکھی پھر آپ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ! اہل فضل ہی فضیلت والوں کا مقام پہنچانتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1164]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، ابن الاعرابي: 141» عباس بن بکار اور محمد بن زکریا غلابی کذاب ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو اعلیٰ اخلاق کی تعمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1165]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 4244، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20839، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9074، والبزار فى «مسنده» برقم: 8949، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 4432، الادب المفرد: 273» محمد بن عجلان مدلس کا عنعنہ ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم یا تو توڑنا پڑتی ہے یا اس پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1169]
سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم یا تو توڑنا پڑتی ہے یا اس پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔“ طبرانی نے کہا: اسے بشار سے صرف ابومعاویہ نے روایت کیا ہے اور ہمیں اس کے علاوہ بشار کی کوئی مسند حدیث یاد نہیں ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1170]