سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بڑا ثواب بڑی آزمائش کے ساتھ ہے اور بے شک اللہ عز وجل جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں ڈال دیتا ہے پھر جو (آزمائش پر) راضی رہا تو اس کے لیے خوشنودی ہے اور جو ناراض ہوا اس کے لیے ناراضی ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1121]
تخریج الحدیث: «منكر، وأخرجه الضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة"، 2350، 2351، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8897، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2396، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4031، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4222» یزید بن ابی حبیب کی سعد بن سنان سے روایت منکر ہوتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سخت عذاب اس عالم کو ہوگا جس کے علم سے اللہ نے اسے فائدہ نہ دیا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1122]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المعجم الصغير: 507، الكامل لابن عدى: 474/3، شعب الايمان: 1642» عثمان بن مقسم ضعیف ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ ٰ کے نزدیک قیامت کے دن لوگوں میں سے بدترین شخص وہ ہوگا جس سے لوگ اس کی فحش کلامی سے بچنے کی وجہ سے ملنا چھوڑ دیں۔“ اس روایت میں ایک قصہ ہے جسے میں نے مختصر بیان کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1123]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6032، 6054، 6131، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2591، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4538، 5696، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9995، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4791، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1996، والحميدي فى «مسنده» برقم: 251، والبيهقي فى "سننه الكبريٰ"، 21212، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24740، الادب المفرد: 338»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ اپنے قبیلے کا برا آدمی ہے۔“ پھر جب وہ اندر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھل کر بشاشت کے ساتھ اس سے بات کی، جب وہ چلا گیا تو ایک دوسرے آدمی نے اجازت مانگی جب اس نے اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اپنے قبیلے کا اچھا آدمی ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب وہ آدمی اندر آیا تو اس سے نہ تو آپ نے کھل کر بات کی جس طرح کہ پہلے سے کی تھی اور نہ اس طرح بشاشت سے پیش آئے۔ کہتی ہیں: جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں شخص کے بارے میں فرمایا جو فرمایا پھر آپ نے کھل کر بشاشت کے ساتھ اس سے بات کی اور اس فلاں کے بارے میں فرمایا جو فرمایا لیکن اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرتے میں نے آپ کو نہیں دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! بے شک لوگوں میں سے بدترین شخص وہ ہے جس کی فحش گوئی کی وجہ سے بچا جائے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1124]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6032، 6054، 6131، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2591، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4538، 5696، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9995، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4791، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1996، والحميدي فى «مسنده» برقم: 251، والبيهقي فى "سننه الكبريٰ"، 21212، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24740، الادب المفرد: 338»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ ٰکے نزدیک لوگوں میں سے بدترین شخص وہ ہے جس نے کسی کی دنیا (بنانے) کی خاطر اپنی آخرت برباد کرلی۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1125]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه طيالسي: 2520، شعب الايمان: 6539، حلية الأولياء: 468/4» عبد الحکم متکلم فیہ ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”بے شک بدبختوں میں سب سے بڑا بد بخت وہ ہے جس پر دنیا کا فقر اور آخرت کا عذاب اکٹھا ہو گیا۔“ یہ حدیث مختصر ہے [مسند الشهاب/حدیث: 1126]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، محمد بن یزید بن سنان اور اس کا والد ضعیف ہیں۔
سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”بے شک مجھے اپنے بعد اپنی امت پر تین کاموں کا خوف ہے: عالم کے پھسل جانے، ظالم حکمران اور خواہشات کی پیروی کا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1127]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه بزار: 3384، حلية الاوليا: 1/470» کثیر بن عبدالله سخت ضعیف ہے۔ اس میں ایک اور علت بھی ہے۔
718. إِنِّي مُمْسِكٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ
718. بے شک میں تمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر (تمہیں) جہنم سے روک رہا ہوں
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میں تمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر (تمہیں) جہنم سے روک رہا ہوں اور تم اس میں اس طرح گرتے جا رہے ہو جیسے پتنگے اور برساتی کیڑے (آگ میں) گرتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1128]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن ابي شيبة: 32336، وبزار: 204، وامثال الحديث للرامهرمزي: 14»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میں (تمہیں) تمہاری کمریں پکڑ پکڑ کر جہنم سے روک رہا ہوں اور تم اس میں اس طرح گرے جا رہے ہو جیسے پتنگے اور برساتی کیڑے (آگ میں) گرتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1129]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن ابي شيبة: 32336، وبزار: 204، وامثال الحديث للرامهرمزي: 14»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میں تمہاری کمریں پکڑ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹ جاؤ لیکن تم زبردستی اس میں گر رہے ہو جیسے پتنگے اور برساتی کیڑے (آگ میں) گرتے ہیں۔ قریب ہے کہ تمہاری کمریں چھوڑ دی جائیں اور (سنو) میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا، وہاں تم الگ الگ اور اکٹھے ہو کر آؤ گے، میں تمہیں تمہاری نشانیوں اور ناموں سے پہچان لوں گاجیسے آدمی اپنے اونٹوں میں سے اجنبی اونٹ کو (آسانی سے) پہچان لیتا ہے اور تمہیں بائیں جانب لے جایا جا رہا ہوگا میں تمہارے بارے میں رب العالمین کی منت سماجت کرتے ہوئے عرض کروں گا: اے میرے رب! یہ میری امت کے لوگ ہیں، اے میرے رب! یہ میری امت ہے، تو ارشاد ہوگا: بے شک آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں، بے شک یہ آپ کے بعد الٹے پاؤں (دین سے) لوٹتے ہی رہے۔ (سنو!) میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ممیاتی بکری اٹھائے ہوگا اور پکار پکار کر کہے گا: اے محمد! اے محمد! میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ بلبلاتے اونٹ کواٹھائے ہوگا، پکارے گا: اے محمد! اے محمد! لیکن میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہنچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ہنہناتے گھوڑے کو اٹھائے ہوگا، پکارے گا: اے محمد! اے محمد! لیکن میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ پانی کا مشکیزہ اٹھائے ہوگا، پکارے گا: اے محمد! اے محمد! لیکن میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا “۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1130]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن ابي شيبة: 32336، وبزار: 204، وامثال الحديث للرامهرمزي: 14»