سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میں تمہاری کمریں پکڑ رہا ہوں کہ آگ سے پرے ہٹ جاؤ لیکن تم زبردستی اس میں گر رہے ہو جیسے پتنگے اور برساتی کیڑے (آگ میں) گرتے ہیں۔ قریب ہے کہ تمہاری کمریں چھوڑ دی جائیں اور (سنو) میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا، وہاں تم الگ الگ اور اکٹھے ہو کر آؤ گے، میں تمہیں تمہاری نشانیوں اور ناموں سے پہچان لوں گاجیسے آدمی اپنے اونٹوں میں سے اجنبی اونٹ کو (آسانی سے) پہچان لیتا ہے اور تمہیں بائیں جانب لے جایا جا رہا ہوگا میں تمہارے بارے میں رب العالمین کی منت سماجت کرتے ہوئے عرض کروں گا: اے میرے رب! یہ میری امت کے لوگ ہیں، اے میرے رب! یہ میری امت ہے، تو ارشاد ہوگا: بے شک آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں، بے شک یہ آپ کے بعد الٹے پاؤں (دین سے) لوٹتے ہی رہے۔ (سنو!) میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ممیاتی بکری اٹھائے ہوگا اور پکار پکار کر کہے گا: اے محمد! اے محمد! میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ بلبلاتے اونٹ کواٹھائے ہوگا، پکارے گا: اے محمد! اے محمد! لیکن میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہنچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ہنہناتے گھوڑے کو اٹھائے ہوگا، پکارے گا: اے محمد! اے محمد! لیکن میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے اس شخص کو بھی ضرور پہچان لوں گا جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ پانی کا مشکیزہ اٹھائے ہوگا، پکارے گا: اے محمد! اے محمد! لیکن میں کہوں گا: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا “۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1130]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن ابي شيبة: 32336، وبزار: 204، وامثال الحديث للرامهرمزي: 14»