سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن سے زیادہ ترک تعلق (جائز) نہیں ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 852]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2562، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9116، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4912، 4914، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20085، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9041»
555. لَا كَبِيرَةَ مَعَ اسْتِغْفَارٍ
555. استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیر نہیں رہتا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیر نہیں رہتا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 853]
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرض کے غم کے سوا کوئی غم نہیں اور آنکھ کے درد کے سوا کوئی درد نہیں۔“ حارثی کی روایت میں ہے کہ امام طبرانی نے کہا: اسے محمد بن منکدر سے صرف ابن ابی ذئب روایت کرتا ہے اور اس سے روایت کرنے میں سہل بن قرین منفرد ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 854]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المعجم الاوسط: 6064، اولمعجم الصغير: 854،» ، قرین بن سہل اور اس کا والد دونوں ضعیف ہیں۔
557. لَا فَاقَةَ لِعَبْدٍ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ
557. اس شخص کے لیے کوئی فاقہ نہیں جو قرآن پڑھتا ہے
حسن سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کے لیے کوئی فاقہ نہیں جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے بغیر اس کے لیے کوئی غنا نہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 855]
تخریج الحدیث: «مرسل، وأخرجه ابن ابي شيبه: 30574» اسے حسن بصری تابعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روایت کیا ہے۔
558. لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ
558. اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے (یعنی اس معاملے میں دو رائے نہیں ہیں)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی خطمہ کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ کو سخت غصہ آیا اور فرمایا: ”میرا اس سے انتقام کون لے گا؟“ تو اس عورت کی قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں (لوں گا)۔ وہ عورت کھجور بیچا کرتی تھی، وہ آدمی اس کے پاس آیا (اور کہا) ان (کھجوروں) سے عمدہ کھجوریں ہیں؟ وہ (عمدہ کھجور لانے) گھر میں داخل ہوئی، وہ آدمی بھی اس کے پیچھے ہی داخل ہو گیا، اس نے دائیں بائیں دیکھا تو اسے کھانے کی میز کے سوا کچھ نظر نہ آیا تو اس نے وہی اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری اور اس کا بھیجہ باہر نکال دیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسے آپ کی طرف سے کافی ہو گیا ہوں، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے۔“ یوں آپ نے اس فرمان کو ضرب المثل بنا دیا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 856]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه الكامل لابن عدى:، تاريخ مدينة السلام:119/15» مجالد بن سعید ضعیف اور محمد بن حجاج سخت ضعیف ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی خطمہ کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی آپ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ کو سخت غصہ آیا، فرمایا: میرا اس سے انتقام کون لے گا؟“ اس عورت کی قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس سے آپ کا انتقام لوں گا۔ وہ عورت کھجوریں بیچا کرتی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ وہ آدمی اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: کیا تیرے پاس کھجوریں ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ اس نے اسے کھجور یں میں دکھا ئیں تو اس آدمی نے کہا: میں ان سے عمدہ کھجور یں میں چاہتا ہوں۔ وہ (کھجوریں لانے) گھر میں داخل ہوئی تو یہ آدمی بھی اس کے پیچھے ہی داخل ہو گیا، اس نے دائیں بائیں دیکھا تو اسے کھانے کی میز کے سوا کچھ نظر نہ آیا، اس نے وہی اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری حتیٰ کہ اس کا بھیجہ باہر نکال دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسے آپ کی طرف سے کافی ہو گیا ہوں تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے۔“ یوں آپ نے اس فرمان کو ضرب المثل بنا دیا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 857]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه الكامل لابن عدى:، تاريخ مدينة السلام:119/15» مجالد بن سعید ضعیف اور محمد بن حجاج سخت ضعیف ہے۔
عبدالله بن حارث بن فضل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: عصما بنت مروان بنی امیہ بن زید میں سے تھی، یزید بن زید بن حصن خطمی اس کا شوہر تھا، وہ مسلمانوں کے خلاف (لوگوں کو) بھڑ کا یا کرتی تھی انہیں ستاتی اور گستاخانہ شعر کہا کرتی تھی۔ عمیر بن عدی نے نذر مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ ٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ بدر سے صحیح سالم واپس لے آیا تو وہ (عمیر) ضرور اس عورت کو قتل کر دے گا۔ راوی کہتا ہے کہ (جب آپ جنگ بدر سے واپس آگئے تو) عمیر نے (نذر پوری کرتے ہوئے) رات کے اندھیرے میں اس پر حملہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آملا، اس نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے غور سے دیکھتے رہے جب آپ اٹھ کر اپنے گھر جانے لگے تو آپ نے عمیر بن عدی سے فرمایا: ”تو نے عصما کو قتل کر دیا ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ (عمیر کہتے ہیں) میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس کے قتل میں مجھ پر کوئی چیز (دیت یا گناہ وغیرہ) ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے۔“ یہ کلمہ (محاور ہ) پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر سے سنا گیا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 858]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احتیاط تقدیر سے بچا نہیں سکتی اور دعا اس مصیبت کے لیے نفع مند ہے جو نازل ہو چکی ہے اور جو ابھی نازل نہیں ہوئی اور بے شک مصیبت نازل ہوتی ہے تو دعا اس کا مقابلہ کرتی ہے پھر قیامت تک ان کی کشتی ہوتی رہتی ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 859]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه حاكم: 1/492، المعجم الاوسط: 2498، تاريخ مدينة السلام: 9/464» زکریا بن منظور ضعیف ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احتیاط تقدیر سے نجات نہیں دلا سکتی اور اگر کوئی چیز رزق روک سکتی ہے تو وہ گریہ و زاری ہے جو اسے روک سکتی ہے اور بے شک دعا مصیبت سے نفع دیتی ہے۔ بلا شبہ اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ”سوائے قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے رسوائی کا عذاب ان سے دور کر دیا۔“ فرمایا: ”(یعنی) جب انہوں نے دعا کی۔“ یہ لفظ یعقوب بن اسحاق راوی کے ہیں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 860]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابومسلم محمد بن أحمد کی توثیق نہیں ملی، اس میں ایک اور بھی علت ہے۔