سیدنا علی علیہ السلام کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بعض بیان جادو ہوتے ہیں، بعض شعر پر حکمت ہوتے ہیں، بعض قول بوجھ ہوتے ہیں اور بعض علم جہالت ہوتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 961]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المختاره: 493، تاريخ دمشق: 24/82» يحيٰى بن سکن ضعیف ہے۔
حدیث نمبر: 962
962 - أنا أَبُو مُحَمَّدٍ التُّجِيبِيُّ، أنا ابْنُ جَامِعٍ السُّكَّرِيُّ، نا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، نا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، نا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكَمًا، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا»
سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بعض شعر پر حکمت ہوتے ہیں اور بے شک بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 962]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أحمد: 1/453، ابن ابي شيبة: 26534، المعجم الكبير: 10345» قيس بن ربیع ضعیف ہے، اس میں اور بھی علتیں ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرق کی طرف سے دو آدمی آئے انہوں نے خطبہ دیا لوگوں کو ان کا بیان بڑا پسند آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بعض بیان تو جادو ہوتے ہیں۔“ یا ”بے شک بعض بیان تو جادو ہوتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 963]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5146، 5767، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1850، بخاري: 5767 والترمذي: 2028، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4741، 5328»
سیدنا براء رضی اللہ عنہ ا سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بعض شعر پر حکمت ہوتے ہیں اور بے شک بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 966]
تخریج الحدیث: إسناده ضعيف جدا، محمد بن عبید اللہ متروک ہے، اس میں ایک اور علت بھی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میری امت امت مرحومہ ہے (یعنی اس پر خصوصی رحمت فرمائی گئی ہے)۔“[مسند الشهاب/حدیث: 967]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، جعفر بن أحمد بن عبد السلام اور محمد بن بکر بن فضل کی توثیق نہیں ملی۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: ”بے شک یہ امت امت مرحومہ ہے، اس پر آخرت میں کوئی عذاب نہیں، اس کا عذاب دنیا میں ہی قتل، فتنوں اور زلزلوں کی صورت میں بنا دیا گیا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 968]
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت، امت مرحومہ ہے، اس پر آخرت میں کوئی عذاب نہیں، اس کا عذاب دنیا میں ہی زلزلوں اور قتل کی صورت میں ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 969]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 8466، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4278، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19991، 20066، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7277»
ابوبكر بن محمد بن اسحٰق بن خزیمہ کہتے ہیں کہ جب میں بخاری میں داخل ہوا تو میری پہلی مجلس وہاں کے امیر اسماعیل بن أحمد کے ساتھ اہل علم کی ایک جماعت میں ہوئی، وہاں کئی احادیث کا ذکر آیا، امیر اسماعیل نے یہ حدیث: ”میری امت امت مرحومہ ہے۔۔۔۔۔“ الخ، اس سند سے بیان کی: «حدثا ابي حدثنا يزيد بن هارون عن حميد عن انس قال قال، رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔۔۔» میں نے کہا: اللہ تعالیٰ امیر کی تائید فرمائے یہ حدیث نہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے نہ حمید نے اور نہ یزید بن ہارون نے۔ امیر اسماعیل چپ ہو گیا، پھر پوچھنے لگا: وہ کیسے؟ میں نے جواب دیا: یہ حدیث سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور انہی پر اس کا مدار ہے۔ جب مجلس برخواست ہوگئی تو مجھ سے ابوعلی صالح بن محمد بغدادی کہنے لگے: ابوبکر! اللہ تعالیٰ ٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے، اس امیر نے کئی بار ہم لوگوں سے اس سند کا ذکر کیا ہے لیکن ہم میں سے کسی کو اس کی تردید کی جرٱت نہ ہو سکی۔ ابوعبد اللہ نے کہا: دراصل امیر اسماعیل بن أحمد کا مقصد اس حدیث کو اس سند سے بیان کرنا تھا: «يزيد بن هارون عن المسعود ي عن سعيد بن ابي بردة بن ابي موسي ٰ عن ابيه عن جده۔۔۔۔۔» میں کہتا ہوں: محمد بن بکر بن فضل فقیہ کی حدیث جسے ہم نے روایت کیا ہے اس کی سند حمید کے واسطے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ پر جاکرختم ہوتی ہے اور یہ وہ حدیث ہے جس کی ہمارے شیخ محمد عبد الغنی نے اس کتاب میں تخریج کی ہے جس میں انہوں نے بخاری اور مسلم کی شروط پر محمد بن بکر کی صحیح روایات جمع کی ہیں، جبکہ مسعودی کی حدیث جو ہے اسے ہم نے بزار کی سند سے روایت کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 970]