سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لذتوں کو تباہ کرنے والی (موت) کو کثرت سے یاد کروکیونکہ وہ (موت کی یاد) مال کی زیادتی میں ہو تو اس (مال) کو کم کر دیتی ہے اور (اگر) مال کی کمی میں ہو تو اسے زیادہ کر دیتی ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 671]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه ابن الاعرابي: 370، المعجم الاوسط: 5780، شعب الايمان: 41007»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جب اکتاہٹ محسوس کرو تو) گھڑی دو گھڑی دلوں کو راحت پہنچا لیا کرو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 672]
تخریج الحدیث: إسناده ضعيف جدا، ولید بن محمد الموقری متروک ہے۔
سیدنا اسامہ بن عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمامہ باندھا کرو تمہارے حلم میں اضافہ ہوگا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 673]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه المعجم الكبير: 517، شعب الايمان: 5849، الكامل لابن عدي: 7/ 195» عبید اللہ بن ابی حمید متروک ہے۔ نوٹ: مسند الشھاب کے مطبوع نسخے میں اسماعیل بن عمر سے آگے سند اور متن ساقط ہے شاید کسی ناسخ سے سہواً ایسا ہوا ہے، راقم نے المعجم الکبیر اور دیگر کتب سے اصلاح کی ہے۔ والحمد للہ۔ (محمد ارشد کمال)
مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ بات بھی ارشاد فرمائی اور انہوں نے اسے بیان کیا۔ ”تم عمل کرتے رہو ہر شخص کے لئے وہ عمل آسان کردیا جاتا ہے جس کے لئے وہ پید کیا گیا ہے“۔ [مسند الشهاب/حدیث: 674]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه السنة لابن ابي عاصم: 173» ابوحنیفہ ضیعف ہے۔
442. تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ
442. محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ تمہاری کثرت پر دیگر اقوام کے سامنے میں فخر کرنے والا ہوں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 675]
سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کیا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔“ اسے امام مسلم نے بھی اپنی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوع بیان کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 676]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کیا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 677]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1923، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1095، والنسائي: 2148، والترمذي فى «جامعه» برقم: 708، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1738، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1692، والطبراني فى «الصغير» برقم: 60، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1937، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3466، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12131»
444. اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ
444. آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جہنم کی) آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 678]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔“ امام مالک کی احادیث میں سے یہ حدیث نادر الوجود ہے۔ ہمیں ابومحمد تجیبی نے خبر دی کہ بے شک ابومحمد عبد الغنی بن سعید الحافظ نے اسے ان سے لکھا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 679]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه تاريخ دمشق: 60/ 251» ابوعلی الحسن بن یوسف بن ملیح کی توثیق نہیں ملی۔
ابوبحر بکراوی کہتے ہیں کہ ہم امام شعبہ کے پاس تھے کہ ایک سائل آیا تو شعبہ نے کہا: صدقہ کرو۔ لیکن لوگوں نے صدقہ نہ کیا تو انہوں نے فرمایا: ہمیں ابواسحاق نے عبداللہ بن معقل از عدی بن حاتم کی سند سے حدیث بیان کی کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔“(حدیث سن کر بھی) سائل کوکچھ نہ دیا گیا تو امام شعبہ نے فرمایا: ہمیں اعمشی نے خیثمہ از عدی بن حاتم کی سند سے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔“ اس بار بھی لوگوں نے (سائل کو) کچھ نہ دیا تو امام شعبہ نے فرمایا: ہمیں محل بن خلیفہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: کہ میں نے عدی بن حاتم کو یہ کہتے سنا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔“ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے پھر بھی کچھ نہ دیا تو امام شعبہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! آج میں تمہیں ضرور کوئی نہ کوئی چیز بیان (حدیث) بیان کرتا رہوں گا، بخیل دکاندارو! یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ [مسند الشهاب/حدیث: 680]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابوبحر بکراوی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔