سیدنا ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف کر دیااللہ اسے اپنا سایہ نصیب فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 461]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أحمد: 3/427، شعب الايمان: 10735، دارمي: 2588» عبدالملک بن عمیر مدلس کا عنعنہ ہے۔
عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں اور وليد بن عبادہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی، (عبادہ نے) کہا: میں اپنے والد کے ہمراہ نکلا اس وقت میں نوجوان لڑکاتھا، (ہمیں) ایک آدمی ملا، وہ (ولید) کہنے لگے: چچا جان! میں نے آپ کو پہچان لیا ہے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں۔ یوں ہمیں ایک بزرگ کی صحبت مل گئی، اس بزرگ کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا جو ایک رجسٹر اٹھائے ہوئے تھا، میرے والد نے اس سے کہا: چچا جان! آپ کی صبح کیسی ہوئی؟ اس نے کہا: خیریت کے ساتھ، میرے والدنے کہا: میں آپ کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھ رہا ہوں، اس نے کہا: ہاں، فلاں بن فلاں کے ذمہ کچھ قرض تھا، میں اس کی تلاش میں گیا، میں نے اس کے دروازے پر سلام بلایا تو گھر سے ایک چھوٹا بچہ نکلا، میں نے اس سے پوچھا: تو اس نے کہا: کہ وہ گھر ہی میں ہے، چنانچہ میں نے آواز دی کہ اے فلاں! باہر میری طرف نکل، تو وہ میری طرف نکل آیا۔ میں نے کہا: تجھے اس بات پر کس نے ابھاراکہ میں نے تجھے سلام بلایا لیکن نہ تو باہر نکلا اور نہ مجھے جواب دیا؟ اس نے کہا: اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میرے پاس (رقم) نہیں تھی اور بے شک میں اس بات سے ڈرا کہ آپ سے جھوٹ بولوں اور وعدہ کروں تو خلاف ورزی کروں۔ میں نے کہا: کیا (واقعی) اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ (ابوالیسر) کہنے لگے: میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں، میرے کانوں نے آپ کو یہ فرماتے سنا اور دل نے اسے یاد رکھا کہ: ”جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف کر دیا تو اللہ اسے اس دن سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا“۔ کہتے ہیں: اس لیے میں نے اس سے وہ دستاویز مٹا دی۔ عبادہ بن ولید کہتے ہیں ان (ابوالیسر) پر ایک دھاری دار چادر تھی اور ایک کڑھائی والی کملی تھی اور ان کے غلام پر بھی اسی طرح کا لباس تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: چچا جان! آپ کو اس بات سے کس نے روکا کہ آپ یہ کڑھائی والی کملی اپنے غلام کو دے دیتے اور (اس سے) دھاری دار چادر لے لیتے تاکہ آپ پر دو دھاری دار چادر میں ہو جاتیں اور اس پر دو کڑھائی والی کملیاں ہو جاتیں؟ کہتے ہیں کہ وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور (میرے والد سے) کہا: یہ تیرا بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: اللہ تجھے برکت دے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”ان (غلاموں) کو ویسا ہی کھلاؤ جیسا خود کھاتے ہو اور ویسا ہی پہناؤ جیسا خود پہنتے ہو “۔ میرے بھتیجے! متاع دنیا کا چلے جانا مجھے اس بات سے زیادہ عزیز ہے کہ وہ مجھ سے متاع آخرت لے لے۔ میں نے اپنے والد سے کہا: ابوجی! یہ (بزرگ) کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ ابوالیسر بن عمرو ہیں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 462]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم: 3006، 3007، وابن ماجه: 2419، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5044، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2237، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2630»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دنیا میں دو زبانوں والا ہوگا اس کے لیے قیامت کے دن آگ کی دو زبانیں بنائی جائیں گی۔“ اور ابن خر اس کی حدیث میں ہے: ”اللہ تعالیٰ ٰ قیامت کے دن اس کے لیے آگ کی دو زبانیں بنائے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 463]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابويعلي: 2771، الزهد لهناد رقم: 1137، الصمت لابن ابي الدنيا: 282» حسن بصری مدلس کا عنعنہ اور اسماعیل بن مسلم الملکی ضعیف ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے بھائی کی کتاب (یا تحریر) میں اس کی اجازت کے بغیر نظر ڈالی تو گویا وہ آگ میں نظر ڈال رہا ہے۔“ یہ حدیث مختصر ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 464]
تخریج الحدیث: إسناده ضعيف، ابومقدام ہشام بن زیاد متروک ہے۔
سیدنا ابوبرز ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی نیکی کا حکم دے تو اس کا اپنا معاملہ بھی اچھا ہوتا چاہیے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 465]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، بقیہ بن ولید مدلس کا عنعنہ ہے، اسحاق بن مالک کی توثیق نہیں ملی جبکہ ابوعمر و مقدام بن داود مجروح ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے چالیس صبح اللہ کے لیے خالص کر لیں اس کی زبان پر اس کے دل سے حکمت کے چشمے جاری ہوں گے۔“ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد وہ شخص ہے جو (چالیس دن) عشاء اور فجر کی جماعت میں حاضر ہوتا ہے۔ ”اور جس شخص نے چالیس دن ان دونوں نمازوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پالیا اس کے لیے دو خلاصیاں ہیں: ایک خلاصی آگ سے ہے اور ایک خلاصی نفاق سے ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 466]
تخریج الحدیث: إسناده ضیعف جدا، سوار بن مصعب متروک ہے۔
326. جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 467]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6018، 6136، 6138، 6475، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 47، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5154، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2500، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3971، والطبراني فى «الصغير» برقم: 740، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14839، 16760، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7741»
سیدنا ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسائے سے حسن سلوک کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 468]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري: 6019، ومسلم: 48، وابن ماجه: 3672، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1635، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1967، 1968، والحميدي فى «مسنده» برقم: 585، 586، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16632»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 469]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6018، 6136، 6138، 6475، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 47، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5154، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2500، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3971، والطبراني فى «الصغير» برقم: 740، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14839، 16760، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7741»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 470]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6018، 6136، 6138، 6475، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 47، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5154، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2500، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3971، والطبراني فى «الصغير» برقم: 740، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14839، 16760، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7741»