1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث401 سے 600
321. مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ أَلَا ظِلُّهُ.
321. جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف کر دیا اللہ اسے اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا
حدیث نمبر: 462
462 - وأنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ النَّيْسَابُورِيُّ، نا الْقَاضِي أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ نا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، نا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ، أنا حَنْظَلَةُ بْنُ عَمْرٍو الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِي حَزْرَةَ، أَخْبَرَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَكَانَ لِلْوَلِيدِ صُحْبَةٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ أَبِي وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ وَإِذْ أَلْقَى الرَّجُلُ يَقُولُ: أَيْ عَمِّ عَرَفْتُ أَنَّهُ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَحِبَنَا شَيْخٌ أَوْ كَمَا قَالَ، وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ يَحْمِلُ صُحُفًا فَقَالَ لَهُ أَبِي: كَيْفٍ أَصْبَحْتَ يَا عَمِّ؟، قَالَ: بِخَيْرٍ. قَالَ أَبِي: أَرَى فِي  وَجْهِكَ سَفْعَةً مِنْ غَضَبٍ، قَالَ: أَجَلْ، كَانَ لِي عَلَى فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ دَيْنٌ فَجِئْتُ أَبْتَغِيهِ فَسَلَّمْتُ عَلَى الْبَابِ فَخَرَجَ وَلِيدٌ مِنَ الْبَيْتِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: هُوَ فِي الْبَيْتِ فَنَادَيْتُ اخْرُجْ إِلَيَّ يَا فُلَانُ، فَخَرَجَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ سَلَّمْتُ عَلَيْكَ فَلَمْ تَخْرُجَ وَلَمْ تُجِبْنِي؟، قَالَ: وَالَّذِي لَا إِلَهُ إِلَّا هُوَ مَا عِنْدِي، وَلَقَدْ خَشِيتُ أَنْ أَكْذِبَكَ وَأَعِدَكَ فَأُخْلِفَكَ قُلْتُ: آللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهُ إِلَّا هُوَ؟، قَالَ: نَعَمْ، آللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهُ إِلَّا هُوَ، قَالَ: فَأَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَمِعْتُهُ بِأُذُنِي وَوَعَاهُ الْقَلْبُ وَهُوَ يَقُولُ: «مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ» قَالَ: فَمَحَوْتُ عَنْهُ الْكِتَابَ. قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ: فَإِذَا عَلَيْهِ بُرْدَةٌ وَنَمِرَةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ مِثْلُ ذَلِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ أَيْ عَمِّ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُعْطِيَ غُلَامَكَ هَذِهِ النَّمِرَةَ وَتَأْخُذَ الْبُرْدَةَ فَيَكُونُ عَلَيْكَ بُرْدَانِ وَعَلَيْهِ نَمِرَةٌ؟، قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي فَقَالَ:" ابْنُكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَمَسَحَ عَلَى رَأْسِي وَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ وَاكْسُوهُمْ مِمَّا تَكْتَسُونَ» يَا ابْنَ أَخِي ذَهَابُ مَتَاعِ الدُّنْيَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ مِنِّي مَتَاعَ الْآخِرَةِ" قُلْتُ لِأَبِي: أَبَتَاهُ مَنْ هَذَا؟، قَالَ:" هَذَا أَبُو الْيَسَرِ بْنُ عَمْرٍو
عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں اور وليد بن عبادہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی، (عبادہ نے) کہا: میں اپنے والد کے ہمراہ نکلا اس وقت میں نوجوان لڑکاتھا، (ہمیں) ایک آدمی ملا، وہ (ولید) کہنے لگے: چچا جان! میں نے آپ کو پہچان لیا ہے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ہیں۔ یوں ہمیں ایک بزرگ کی صحبت مل گئی، اس بزرگ کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا جو ایک رجسٹر اٹھائے ہوئے تھا، میرے والد نے اس سے کہا: چچا جان! آپ کی صبح کیسی ہوئی؟ اس نے کہا: خیریت کے ساتھ، میرے والدنے کہا: میں آپ کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھ رہا ہوں، اس نے کہا: ہاں، فلاں بن فلاں کے ذمہ کچھ قرض تھا، میں اس کی تلاش میں گیا، میں نے اس کے دروازے پر سلام بلایا تو گھر سے ایک چھوٹا بچہ نکلا، میں نے اس سے پوچھا: تو اس نے کہا: کہ وہ گھر ہی میں ہے، چنانچہ میں نے آواز دی کہ اے فلاں! باہر میری طرف نکل، تو وہ میری طرف نکل آیا۔ میں نے کہا: تجھے اس بات پر کس نے ابھاراکہ میں نے تجھے سلام بلایا لیکن نہ تو باہر نکلا اور نہ مجھے جواب دیا؟ اس نے کہا: اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میرے پاس (رقم) نہیں تھی اور بے شک میں اس بات سے ڈرا کہ آپ سے جھوٹ بولوں اور وعدہ کروں تو خلاف ورزی کروں۔ میں نے کہا: کیا (واقعی) اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ (ابوالیسر) کہنے لگے: میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں، میرے کانوں نے آپ کو یہ فرماتے سنا اور دل نے اسے یاد رکھا کہ: جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اسے معاف کر دیا تو اللہ اسے اس دن سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ کہتے ہیں: اس لیے میں نے اس سے وہ دستاویز مٹا دی۔ عبادہ بن ولید کہتے ہیں ان (ابوالیسر) پر ایک دھاری دار چادر تھی اور ایک کڑھائی والی کملی تھی اور ان کے غلام پر بھی اسی طرح کا لباس تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: چچا جان! آپ کو اس بات سے کس نے روکا کہ آپ یہ کڑھائی والی کملی اپنے غلام کو دے دیتے اور (اس سے) دھاری دار چادر لے لیتے تاکہ آپ پر دو دھاری دار چادر میں ہو جاتیں اور اس پر دو کڑھائی والی کملیاں ہو جاتیں؟ کہتے ہیں کہ وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور (میرے والد سے) کہا: یہ تیرا بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: اللہ تجھے برکت دے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ان (غلاموں) کو ویسا ہی کھلاؤ جیسا خود کھاتے ہو اور ویسا ہی پہناؤ جیسا خود پہنتے ہو ۔ میرے بھتیجے! متاع دنیا کا چلے جانا مجھے اس بات سے زیادہ عزیز ہے کہ وہ مجھ سے متاع آخرت لے لے۔ میں نے اپنے والد سے کہا: ابوجی! یہ (بزرگ) کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ ابوالیسر بن عمرو ہیں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 462]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم: 3006، 3007، وابن ماجه: 2419، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5044، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2237، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2630»

وضاحت: تشریح: -
دیکھئے حدیث نمبر 458 کی تشریح۔