ابونضرہ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک سفر میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، میرا اونٹ پیچھے رہ گیا۔۔ اور (پوری) حدیث بیان کی اور اس میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچوکا لگایا، پھر مجھ سے فرمایا: "اللہ کا نام لے کر سوار ہو جاؤ۔" اور یہ اضافہ بھی کیا، کہا: آپ مسلسل مجھے زیادہ کی پیشکش کرتے اور فرماتے رہے: "اللہ تمہیں معاف فرمائے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو میرا پانی ڈھونے والا اونٹ پیچھے رہ گیا، اور مذکورہ بالا روایت بیان کی، اور اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچوکا لگایا، پھر مجھے فرمایا، "بسم اللہ پڑھ کر اس پر سوار ہو جا،" اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے، آپ مجھے زیادہ کی پیشکش کرتے رہے، اور فرماتے: "اللہ تمہیں معاف فرمائے۔"
ابوزبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میرا اونٹ تھک چکا تھا تو آپ نے اسے کچوکا لگایا، وہ اچھل پڑا۔ اس کے بعد میں اس کی لگام کھینچتا تاکہ آپ کی بات سنوں لیکن میں اس پر قابو نہ پا رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملے تو فرمایا: "یہ مجھے بیچ دو۔"میں نے وہ (اونٹ) آپ کو پانچ اوقیہ (چاندی جو ایک اوقیہ سونے کے برابر تھی) کے عوض فروخت کر دیا۔ میں نے کہا: اس شرط پر کہ مدینہ تک اس کی پیٹھ (پر سواری) میرے لیے ہو گی۔ آپ نے فرمایا: "مدینہ تک اس کی پیٹھ (پر سواری) تمہاری ہو گی۔" کہا: جب میں مدینہ پہنچا، اس (اونٹ) کو آپ کے پاس لایا تو آپ نے مجھے ایک اوقیہ (طے شدہ قیمت کا چوتھا حصہ) زائد دیا، پھر آپ نے مجھے (اونٹ بھی) ہبہ کر دیا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ تک پہنچے اور میرا اونٹ تھک چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچوکا لگایا، تو وہ اچھل پڑا، اس کے بعد میں اس کی نکیل کھینچتا تھا تاکہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن سکوں، لیکن وہ میرے قابو نہیں آتا تھا یا اس کی تیز سے بات سن نہیں سکتا تھا، تو مجھ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے، اور فرمایا، ”اسے مجھے بیچ دو۔“ تو میں نے اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ اوقیہ میں بیچ دیا، اور میں نے کہا، اس شرط پر کہ مدینہ تک اس پر میں سوار ہوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ تک تم ہی اس پر سوار رہو گے۔“ تو جب میں مدینہ پہنچا، اسے لے کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اوقیہ زیادہ دیا، پھر وہ اونٹ بھی مجھے ہبہ کر دیا۔
ابومتوکل ناجی نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کیا۔۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے جنگی سفر کہا۔۔ اور حدیث بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جابر! کیا تم نے پوری قیمت لے لی ہے؟" میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیمت بھی تمہاری، اونٹ بھی تمہارا، (پھر فرمایا:) قیمت بھی تمہاری، اونٹ بھی تمہارا۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، راوی کا خیال ہے، وہ جنگی سفر تھا، آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی، اور اس میں یہ اضافہ کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”اے جابر، کیا تو نے پوری قیمت وصول کر لی ہے؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیمت بھی تیری، اونٹ بھی تیرا، قیمت بھی تیری، اونٹ بھی تیرا۔“
معاذ عنبری نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے محارب سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دو اوقیہ اور ایک یا دو درہموں میں اونٹ خریدا۔ جب آپ صرار (کے مقام پر) آئے تو آپ نے گائے (ذبح کرنے) کا حکم دیا، وہ ذبح کی گئی، لوگوں نے اسے کھایا، جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں مسجد آؤں اور دو رکعتیں پڑھوں۔ آپ نے میرے لیے اونٹ کی قیمت (کے برابر سونے یا چاندی) کا وزن کیا اور میرے لیے پلڑا جھکا دیا۔ فائدہ: قیمت کے حوالے سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کے راوی محارب (بن وثار) کو وہم ہوا ہے جس طرح اگلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے، وہ اصل قیمت کو صحیح طور پر یاد نہیں رکھ سکے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جب چاندی کے حساب سے اونٹ کی قیمت بتائی تو اس وقت چاندی کا ایک اوقیہ زائد دیے جانے کی بات کی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 4103) چاندی کے اس اوقیے کو غلطی سے سونے کے ایک اوقیے کے ساتھ ملا کر دو اوقیے کر دیا گیا ہے، ان احادیث میں قیمت یا سونے میں بیان کی گئی ہے یا اس کی قیمت کے برابر چاندی میں یا اسی کے برابر دیناروں میں۔ بعض نے اضافے کو قیمت کے ساتھ شامل کر دیا ہے جس سے التباس پیدا ہوا ہے۔ البتہ سب احادیث اصل مسئلہ میں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ دو اوقیہ اور ایک درہم یا دو درہم میں خریدا، تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ کے قریب) صرار نامی جگہ پر پہنچے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے گائے ذبح کی گئی، سب نے اسے کھایا، تو جب ہم مدینہ پہنچے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا، اور مجھے اونٹ کی قیمت تول دی اور پلڑا جھکا کر دی۔
خالد بن حارث نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے محارب نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے خبر دی اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی قصہ بیان کیا، مگر انہوں نے کہا: آپ نے مجھ سے اونٹ قیمتا خرید لیا جس کی انہوں (جابر رضی اللہ عنہ) نے تعیین بھی کی، (اس روایت میں) انہوں نے دو اوقیہ، ایک درہم اور دو درہموں کا تذکرہ نہیں کیا اور کہا: آپ نے گائے کا حکم دیا تو اسے ذبح کیا گیا، پھر آپ نے اس کا گوشت تقسیم کر دیا۔
امام صاحب، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مذکورہ واقعہ بیان کرتے ہیں، اس میں یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ متعین قیمت پر خریدا، دو اوقیہ اور ایک درہم یا دو درہم کا تذکرہ نہیں کیا، اور یہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے گائے نحر کی گئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو گوشت تقسیم کر دیا۔
عطاء نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "میں نے تمہارا اونٹ چار دینار (جو سونے کے ایک اوقیہ کے برابر ہے) میں لیا اور مدینہ تک اس کی پیٹھ (پر سواری) کا حق تمہارا ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”میں نے تیرا اونٹ چار دینار میں لے لیا، اور مدینہ تک تم اس پر سوار ہو گے۔“
امام مالک بن انس نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے اور انہوں نے حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے بعد میں ادائیگی (سلف) کے عوض ایک نو عمر اونٹ لیا، آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آئے تو آپ نے حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اس آدمی کو اس کے نو عمر اونٹ کی ادائیگی کر دیں۔ حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ لوٹ کر آپ کے پاس آئے اور عرض کی: میں نے تو (آئے ہوئے) ان اونٹوں میں ساتویں سال کا بہت اچھا اونٹ ہی پایا ہے۔ تو آپ نے فرمایا: "اسے وہی دے دو، لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جو ادا کرنے میں بہترین ہو۔"
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے جوان اونٹ قرض لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ اس آدمی کو اس کے (جوان اونٹ کے عوض) جوان اونٹ دے دو، تو ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ نے واپس آ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ مجھے ان اونٹوں میں اس سے بہتر ساتویں سال کا اونٹ ہی ملتا ہے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے وہی دے دو، کیونکہ بہترین لوگ وہی ہیں، جو قرض بہتر انداز میں ادا کرتے ہیں۔“
محمد بن جعفر سے روایت ہے، میں نے زید بن اسلم سے سنا، انہوں نے کہا: ہمیں عطاء بن یسار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابورافع رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نو عمر اونٹ بعد کی ادائیگی پر لیا۔۔۔اسی کے مانند، مگر انہوں نے کہا: "اللہ کے بندوں میں سے بہترین وہ ہے جو ان میں سے ادائیگی میں بہترین ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، اتنا فرق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے بہترین بندے، وہ ہیں جو ادائیگی میں بہترین ہیں۔“
شعبہ نے ہمیں سلمہ بن کہیل سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق (قرض) تھا، اس نے آپ کے ساتھ سخت کلامی کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے (اسے جواب دینے کا) ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کا حق ہو، وہ بات کرتا ہے۔" اور آپ نے انہیں فرمایا: "اس کے لیے (اس کے اونٹ کا) ہم عمر اونٹ خریدو اور وہ اسے دے دو۔" انہوں نے عرض کی: ہمیں اس سے بہتر عمر کا اونٹ ہی ملتا ہے۔ تو آپ نے فرمایا: "وہی خریدو اور اسے دے دو، بلاشبہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو ادائیگی میں بہترین ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ حق (قرض) تھا، تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سخت لہجہ سے تقاضا کیا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسے سبق سکھانے کا ارادہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب حق کو بات کہنے کا حق حاصل ہے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا: ”(اس کی عمر کا) اونٹ خرید کر اسے دے دو۔“ انہوں نے عرض کیا، نہیں اس کے جانور کی عمر سے بہتر عمر کا جانور ملتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”وہی خرید کر اسے دے دو، کیونکہ تم میں سے بہترین، یا تمہارے بہترین افراد وہی ہیں، جو قرض ادا کرنے میں بہترین ہیں۔“
علی بن صالح نے سلمہ بن کہیل سے، انہوں نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نو عمر اونٹ ادھار لیا تو آپ نے اس سے بہتر جوان اونٹ دیا اور فرمایا: "تم میں سے بہترین وہ ہے جو ادئیگی میں بہترین ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کم عمر جانور قرض لیا اور اس سے بڑی عمر کا دیا، اور فرمایا: ”تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں، جو قرض ادا کرنے میں بہترین ہیں۔“