الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
45. باب إِعْطَاءِ مَنْ يُخَافُ عَلَى إِيمَانِهِ:
45. باب: ضعیف الایمان لوگوں کو دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2433
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا "، قَالَ: " إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ "، وَفِي حَدِيثِ الْحُلْوَانِيِّ تَكْرِيرُ الْقَوْلِ مَرَّتَيْنِ،
حسن بن علی حلوانی اور عبدبن حمید نے کہا: ہمیں یعقوب بن ابرا ہیم بن سعد نے حدیث سنا ئی کہا میرے والد نے ہمیں صالح سے حدیث بیان کی انھوں نے ابن شہاب سے روایت کی انھوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا جبکہ میں بھی ان میں بٹھا ہوا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا اس کو نہ دیا۔ وہ میرے لیے ان سب کی نسبت زیادہ پسندیدہ تھا میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور ازداری کے ساتھ آپ سے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے آپ فلا ں سے اعراض فر ما رہے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا: " یا مسلمان۔میں کچھ دیر کے لیے چپ رہا پھر جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا وہ بات مجھ پر گالب آگئی اور میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا وجہ ہے کہ فلا ں کو نہیں دے رہے؟اللہ کی قسم! میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا مسلمان۔"اس کے بعد میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر جو میں اسکے بارے میں جا نتا تھا وہ بات مجھ پر غالب آگئی میں نے پھر عرض کی: فلاں سے آپ کے اعراض کا سبب کیا ہے اللہ کی قسم! میں تو اسے مو من سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا: "مسلما۔" (پھر) آپ نے فرمایا: "میں ایک آدمی کو دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوبہو تا ہے اس ڈر سے (دیتا ہوں) کہ وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جا ئے اور حلوانی کی حدیث میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ما ن "یا مسلمان کا) تکرا ر دوبارہے (تین بار نہیں۔)
عامر بن سعد اپنے باپ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کچھ مال دیا اور میں بھی ان میں بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو نظر انداز کر دیا۔ اس کو نہ دیا حالانکہ میرے نزدیک ان سب سے پسندیدہ تھا۔ میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو راز دارانہ انداز میں کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا معاملہ ہے آپ فلاں سے اعراض فرما رہے ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اطاعت گزار) تو میں کچھ دیر خاموش رہا پھر مجھ پر اس کے بارے میں میری معلومات غالب آ گئیں تو میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا بات ہے آپ فلاں کو نہیں دے رہے؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے صحیح مومن پاتا ہوں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا فرمانبردار میں کچھ دیر چپ رہا۔ پھر میں اس کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا وہ مجھ پر غالب آ گیا اور میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو نہیں دے رہے؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا اطاعت کیش۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک ایسے آدمی کو دیتا ہوں جس کے مقابلہ میں مجھے دوسرا اس سے محبوب ہوتا ہے۔ اس ڈر سے کہ وہ اوندھے منہ آگ میں ڈال دیا جائے۔
حدیث نمبر: 2434
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنَاه إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، كُلُّهُمْ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَلَى مَعْنَى حَدِيثِ صَالِحٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،
سفیان ثوری ابن شہاب (زہری) کے بھتیجے (محمد بن عبد اللہ بن شہاب) اور معمر سب نے (زہری) سے اسی سند کے ساتھ اسی (سابقہ حدیث) کے ہم معنی حدیث روایت کی۔
امام صاحب نے اپنے کئی دوسرے اساتذہ سے یہی روایت زہری ہی کی سند سے نقل کی ہے۔
حدیث نمبر: 2435
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ الَّذِي ذَكَرْنَا، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ بَيْنَ عُنُقِي وَكَتِفِي، ثُمَّ قَالَ: " أَقِتَالًا أَيْ سَعْدُ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ ".
محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں یعنی زہری مذکورہ با لا حدیث انھوں نے اپنی حدیث میں کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور کندھے کے در میان اپنا ہا تھ مارا اور فرمایا: " جنگ کر رہے ہو؟ اے سعد!میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔۔۔ (آگے اسی طرح ہے جس طرح پہلی روایت میں ہے)
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے محمد بن سعد کی یہ روایت بیان کرتے ہیں اس میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور کندھے کے درمیان مارا پھر فرمایا: (اے سعد! کیا لڑائی چاہتے ہو؟ میں ایک ایسے آدمی کو دیتا ہوں۔)
46. باب إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِيَ إِيمَانُهُ:
46. باب: قوی الایمان لوگوں کو صبر کی تلقین۔
حدیث نمبر: 2436
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ الْأنْصَارِ قَالُوا يَوْمَ حُنَيْنٍ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَحُدِّثَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ " فَقَالَ لَهُ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ: أَمَّا ذَوُو رَأْيِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ قَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ يُعْطِي قُرَيْشًا، وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ "، فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا، قَالَ: " فَإِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَثَرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنِّي عَلَى الْحَوْضِ "، قَالُوا: سَنَصْبِرُ،
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ حنین کےدن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فے (قبیلہ) ہوازن کے وہ اموال عطا کیے جو عطا کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو سوسو اونٹ دینے شروع کیے تو انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے!آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں (ابھی تک) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کی باتوں میں سے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئیں تو آپ نے انصار کو بلوا بھیجا اور انھیں چمڑے کے ایک (بڑے) سائبان (کے سائے) میں جمع کیا، جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: " یہ کیا بات ہے جو مجھے تم لوگوں کی طرف سے پہنچی ہے؟"انصار کے سمجھدار لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے اہل رائے تو کچھ نہیں کہا، البتہ ہم میں سے ان لوگوں نے، جو نو عمر ہیں، یہ بات کہی ہے کہ اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں (ابھی تک) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ان کو دے رہاہوں جو کچھ عرصہ قبل تک کفر پر تھے، ایسے لوگوں کی تالیف قلب کرناچاہتا ہوں، کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ لوگ مال ودولت لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گھروں کی طرف لوٹو؟اللہ کی قسم! جو کچھ تم لے کر واپس جارہے ہو وہ اس سے بہت بہتر ہے جسے وہ لوگ لے کر لوٹ رہے ہیں۔"تو (انصار) کہنے لگے: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم (بالکل) راضی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک تم (اپنی نسبت دوسروں کو) بہت زیادہ ترجیح ملتی دیکھو گے تو تم (اس پر) صبرکرنا یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آملو۔میں حوض پرہوں گا (وہیں ملاقات ہوگی۔) "انصار نے کہا: ہم (ہر صورت میں صبر) صبر کریں گے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حنین کےدن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہوازن کے بہت سے اموال بطور فئے عنائت فرمائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشی سرداروں کو سوسو اونٹ دینے لگے تو کچھ انصاروں نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے! آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں۔ یعنی ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں وہ کافر تھے۔ اور ہم مسلمان۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو بتائی گئی تو آپ نے انصار کو بلوا بھیجا اور انھیں چمڑے کے خیمے میں جمع کیا، جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے تمہارے بارے میں مجھے پہنچی ہے؟ انصار کے سمجھدار لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اہل رائے تو کوئی بات نہیں کی، لیکن ہمارے نو عمر جوانوں نے کہا۔ اللہ اپنے رسول کو معاف فرمائے، وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کے خون ٹپک رہے ہیں۔ (اسلام کی خاطر) ان سے جنگیں کرتے رہے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے لوگوں کو جو نئے نئے کفر سے نکلےہیں، ان کی تالیف قلب کے لیے (اسلام پر جمانے کے لیے) دیتا ہوں، کیا تم اس پر راضی اور مطمئن نہیں ہو کہ لوگ مال ودولت لے جائیں اور تم اپنے گھروں کی طرف لے کر گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر لوٹو؟ اللہ کی قسم! جو کچھ تم لے کر لوٹ رہے ہو وہ اس سے بہت بہتر ہے جو وہ لے کر لوٹ رہے ہیں۔ تو (انصار) نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم راضی اور مطمئن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم بہت زیادہ اپنے اوپر ترجیح پاؤ گے (تمہیں نظر انداز کر کے دوسروں کو آگے بڑھایا جائے گا) تو صبرکرنا یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملو۔ بے شک میں حوض پرہوں گا انصار نے کہا: ہم ضرور صبر کریں گے۔
حدیث نمبر: 2437
حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مَا أَفَاءَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ "، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ، وَقَالَ: " فَأَمَّا أُنَاسٌ حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ "،
صالح نے ابن شہاب (زہری) سے روایت کی، کہا: مجھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیا ن کی کہ انھوں نے کہا: جب اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (قبیلہ) ہوازن کے اموال میں سے بطور فے عطا فرمایا جو عطا فرمایا۔۔۔اور اس (پچھلی حدیث کے) مانند حدیث بیا ن کی، اس کے سوا کہ انھوں (صالح) نے کہا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے صبر نہ کیا۔اور انہوں نے (اور ہم میں سے ان لوگوں نے جو نوعمر ہیں، کے بجائے"نوعمر لوگوں نے"کہا۔
ایک اور سند سے امام صاحب یہی حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہوازن کے بہت سے اموال بطور فئی دئیے۔ آگے مذکورہ حدیث بیان کی۔ ہاں یہ فرق ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا ہم صبر نہ کر سکے اور أنااناس منا کی جگہ اَنّااناسُ کہا۔
حدیث نمبر: 2438
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بمثله، إلا أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: قَالُوا: نَصْبِرُ، كَرِوَايَةِ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
ابن شہاب کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ) نے اپنے چچا سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی۔اور اسی طرح حدیث بیان کی، سوائے اس بات کےکہ انھوں نے کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان لوگوں (انصار) نے کہا: ہم صبر کریں گے۔جس طرح یونس نے زہری سے روایت کی۔
امام صاحب ایک دوسرے استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اس میں سنصبر کی جگہ نَصبِرُ ہے ہم صبر کریں گے۔
حدیث نمبر: 2439
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ، فَقَالَ: " أَفِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ؟، فَقَالُوا: لَا إِلَّا ابْنُ أُخْتٍ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ابْنَ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَمُصِيبَةٍ، وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَهُمْ وَأَتَأَلَّفَهُمْ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى بُيُوتِكُمْ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ ".
قتادہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع فرمایااور پوچھا: "کیا تم میں تمھارے سواکوئی اور بھی ہے؟"انھوں نے جواب دیا: نہیں، ہمارے بھانجے کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قوم کا بھانجا ان میں سے ہے۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قریش تھوڑے دن قبل جاہلیت اور (گمراہی) کی مصیبت میں تھے اور میں نے چاہا کہ ان کو (اسلام پر) پکا کروں اور ان کی دلجوئی کروں، کیا توم اس پر خوش نہیں ہوگے کہ لوگ دنیاواپس لے کرجائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو؟اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع فرمایا: اور پوچھا: کیا تم میں کوئی اور تو نہیں ہے؟ انھوں نے جواب دیا ہمارے بھانجے کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قوم کا بھانجا ان میں داخل ہے۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش نئے نئے جاہلیت اور مصیبت سے نکلے ہیں اور میں چاہتا ہوں ان کی دلجوئی کروں یعنی ان کے زخم مندمل کروں اور ان کو مانوس کروں کیا تم اس پر خوش نہیں ہو لوگ دنیا لے کر گھروں کو لوٹیں اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر لوٹو؟ اگر لوگ ایک میدان میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی یا درہ میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا۔
حدیث نمبر: 2440
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ، قَسَمَ الْغَنَائِمَ فِي قُرَيْشٍ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْعَجَبُ إِنَّ سُيُوفَنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، وَإِنَّ غَنَائِمَنَا تُرَدُّ عَلَيْهِمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَهُمْ، فَقَالَ: " مَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ "، قَالُوا: هُوَ الَّذِي بَلَغَكَ، وَكَانُوا لَا يَكْذِبُونَ، قَالَ: " أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا إِلَى بُيُوتِهِمْ، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى بُيُوتِكُمْ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ، أَوْ شِعْبَ الْأَنْصَارِ ".
ابوتیاح سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: جب مکہ فتح ہوگیااور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی) غنیمتیں قریش میں تقسیم کیں تو انصار نے کہا: یہ بڑے تعجب کی بات ہے، ہماری تلواروں سے ان لوگوں کے خون ٹپک رہے ہیں اور ہمارے اموال غنیمت انھی کو دیے جارہے ہیں!یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جمع کیا اور فرمایا: "وہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟"انھوں نے کہا: بات وہی ہے جو آ پ تک پہنچ چکی ہےوہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم (اس پر) خوش نہ ہوگے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کراپنے گھروں کو لوٹو۔اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار د وسری وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا انصار کی گھاٹی میں چلوں گا۔" (انصار سے بھی یہی توقع ہے۔)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہو گیا اور (حنین کی) غنیمتیں قریش میں تقسیم کی گئی تو انصار نے کہا یہ کس قدر تعجب خیز بات ہے کہ ہماری تلواروں سے ان کے خون ٹپک رہے ہیں (اور ہماری غنیمتیں) ان کو دی جا رہی ہیں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جمع کیا۔ اور فرمایا: وہ کیا بات ہے جو تمھاری طرف سے مجھ تک پہنچی ہے؟ انھوں نے کہا۔ بات وہی ہے جو آپصلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ وہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ اپنے گھروں کو دنیا لے کر لوٹیں اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر لوٹو۔ اگر لوگ وادی یا درہ میں چلیں اور انصار دوسری وادی یا درہ میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا انصار کے درہ میں چلوں گا۔
حدیث نمبر: 2441
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ ، يزيد أحدهما على الآخر الحرف بعد الحرف، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ، أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِذَرَارِيِّهِمْ وَنَعَمِهِمْ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمَعَهُ الطُّلَقَاءُ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، قَالَ: فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ فَنَزَلَ، فَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ، وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِذَا كَانَتِ الشِّدَّةُ فَنَحْنُ نُدْعَى وَتُعْطَى الْغَنَائِمُ غَيْرَنَا، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ فَسَكَتُوا، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَذْهَبُونَ بِمُحَمَّدٍ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ رَضِينَا، قَالَ: فَقَالَ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ "، قَالَ هِشَامٌ: فَقُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ أَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ؟، قَالَ: وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ،
ہشام بن زید بن انس نےحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب حنین کی جنگ ہوئی تو حوازن اور غطفان اور دوسرے لوگ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس روز دس ہزار (اپنے ساتھی) تھے اور وہ لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جنھیں (فتح مکہ کے موقع پر غلام بنانے کی بجائے) آزاد کیاگیا تھا۔یہ آپ کو چھوڑ کر پیچھے بھاگ گئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن (مہاجرین کے بعد انصار کو) دودفعہ پکارا، ان دونوں کو آپس میں زرہ برابر گڈ مڈ نہ کیا، آپ دائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی: "اے جماعت انصار!"انھوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف متوجہ ہوئےاور فرمایا: "اے جماعت انصار!"انھوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔آپ (اس وقت) سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور فرمایا: "میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔"چنانچہ مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کے بہت سے اموال حاصل کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (فتح مکہ سے زرا قبل) ہجرت کرنے والوں اور (فتح مکہ کے موقع پر) آزاد رکھے جانے والوں میں تقسیم کردیا اور انصارکو کچھ نہ دیا، اس پر انصار نے کہا: جب سختی اورشدت کا موقع ہوتوہمیں بلایا جاتا ہے۔اور غنیمتیں دوسروں کو دی جاتی ہیں!یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی، اس پر آپ نے انھیں سائبان میں جمع کیا اور فرمایا: "اے انصار کی جماعت! وہ کیا بات ہے جو مجھے تمھارے بارے میں پہنچی ہے؟"وہ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے انصار کی جماعت!کیا تم اس بات پر راضی نہ ہوگے کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جمعیت میں شامل کرکے اپنے ساتھ گھروں کو لے جاؤ۔"وہ کہہ اٹھے: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم (اس پر) راضی ہیں۔کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں، تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا۔" ہشام نے کہا میں نے پوچھا: ابوحمزہ رضی اللہ عنہ! (حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیت) آپ اس کے (عینی) شاہد تھے؟انھوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں غائب ہوسکتاتھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حنین کا وقت آیا۔ ہوازن اور غطفان اور دوسرے لوگ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو لے کر آگے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس روز دس ہزار اور فتح مکہ کے وقت آزاد کردہ لوگ تھے، وہ پشت دکھا گئے۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن دودفعہ الگ الگ آواز دی درمیان میں کچھ نہیں کہا، آپ نے دائیں طرف متوجہ ہوکرآواز دی، اے ےنصاریو! اے جماعت انصار! انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہیں، خوش ہوجائیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف التفات فرمایا اور کہا: انصار کے گروہ! انہوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو جائیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتر کر کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غنیمت کا بہت مال ملا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسے مہاجروں اور فتح مکہ موقع پر مسلمان ہونے والوں میں تفسیم کر دیا۔ انصار کو کچھ نہ دیا، اس پر انصار نے کہا: جب سختی اورشدت کا موقع ہوتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے۔ اور غنیمتیں دوسروں کو دی جاتی ہیں! یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خیمہ میں جمع کیا، اور فرمایا: اے انصار کی جماعت! وہ کیا بات ہے جو مجھے تمھارے بارے میں پہنچی ہے؟ وہ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں (دنیا کا مال و دولت لے لیں) اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے گھروں کو لے جاؤ۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم راضی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی کو اختیار کروں گا۔" ہشام کہتے ہیں، میں نے پوچھا: اے ابوحمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ہے) ا س وقت آپ موجود تھے؟ انھوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاں غائب ہو سکتا تھا۔ طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں۔جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے آپ نے ان پر احسان فرمایا ان کو قتل نہ کیا اور قیدی بھی نہ بنایا بلکہ آزاد کر دیا۔
حدیث نمبر: 2442
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي السُّمَيْطُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: افْتَتَحْنَا مَكَّةَ، ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَيْنًا، فَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ بِأَحْسَنِ صُفُوفٍ رَأَيْتُ، قَالَ: فَصُفَّتِ الْخَيْلُ، ثُمَّ صُفَّتِ الْمُقَاتِلَةُ، ثُمَّ صُفَّتِ النِّسَاءُ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ، ثُمَّ صُفَّتِ الْغَنَمُ، ثُمَّ صُفَّتِ النَّعَمُ، قَالَ: وَنَحْنُ بَشَرٌ كَثِيرٌ قَدْ بَلَغْنَا سِتَّةَ آلَافٍ، وَعَلَى مُجَنِّبَةِ خَيْلِنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ خَيْلُنَا تَلْوِي خَلْفَ ظُهُورِنَا، فَلَمْ نَلْبَثْ أَنِ انْكَشَفَتْ خَيْلُنَا، وَفَرَّتِ الْأَعْرَابُ وَمَنْ نَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ فَنَادَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا لَلْمُهَاجِرِينَ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ "، ثُمَّ قَالَ: " يَا لَلْأَنْصَارِ يَا لَلْأَنْصَارِ "، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: هَذَا حَدِيثُ عِمِّيَّةٍ، قَالَ: قُلْنَا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَايْمُ اللَّهِ مَا أَتَيْنَاهُمْ حَتَّى هَزَمَهُمُ اللَّهُ "، قَالَ: فَقَبَضْنَا ذَلِكَ الْمَالَ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الطَّائِفِ فَحَاصَرْنَاهُمْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى مَكَّةَ فَنَزَلْنَا، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الرَّجُلَ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، ثُمَّ ذَكَرَ بَاقِيَ الْحَدِيثِ كَنَحْوِ حَدِيثِ قَتَادَةَ، وَأَبِي التَّيَّاحِ، وَهِشَامِ بْنِ زَيْدٍ.
سمیط نےحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم نے مکہ فتح کرلیا، پھر ہم نے حنین میں جنگ کی، میرے مشاہدے کے مطابق مشرک بہترین صف بندی کرکے (مقابلہ میں) آئے۔پہلے گھڑ سواروں کی صف بنائی گئی، پھر جنگجوؤں (لڑنے والوں) کی، پھر اس کے پیچھے عورتوں کی صف بنائی گئی، پھر بکریوں کی قطاریں کھڑی کی گئیں، پھر اونٹوں کی قطاریں۔کہا: اور ہم (انصار) بہت لوگ تھے، ہماری تعداد چھ ہزار کو پہنچ گئی تھی اور ہمارے پہلو کے سواروں پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ہمارے گھڑ سوار ہماری پشتوں کی طرف مڑنے لگے اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے سوار بکھر گئے اور بدو بھی بھاگ گئے اور وہ لوگ بھی جن کو ہم جانتے ہیں (مکہ کے نو مسلم) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازدی: "اے مہاجرین!اے مہاجرین!"پھر فرمایا: "اے انصار! اے انصار!کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ (میرے اپنے مشاہدے کے علاوہ جنگ میں شریک لوگوں کی) جماعت کی روایت ہے۔کہا: ہم نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، اور ہم اللہ کی قسم!ان تک پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ نے ان کو شکست سے دو چار کردیا، اس پر ہم نے اس سارے مال پر قبضہ کرلیا، پھر ہم طائف کی طرف روانہ ہوئے اور چالیس دن تک ان کا محاصرہ کیا، پھر ہم مکہ واپس آئے اوروہاں پڑاؤکیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سواونٹ (کے حساب سے) دینے کا آغاز فرمایا۔۔۔پھرحدیث کا باقی حصہ اسی طرح بیان کیا جس طرح (اوپر کی روایات میں) قتادہ، ابو تیاح اور ہشام بن زیدکی روایت ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ ہم نے مکہ فتح کرلیا، پھر ہم نے حنین کا رخ کیا، اور مشرک میرے مشاہدے کے مطابق بہترین صف بندی کر کے مقابلہ میں) آئے۔ پہلے گھڑ سواروں کی صف، پھر جنگجوؤں اور لڑنے والوں کی صف، پھر اس کے پیچھے عورتوں کی صف (تاکہ یہ لوگ اگر بھاگیں تو عورتیں عار دلائیں)، پھر بکریوں کی صف، پھر اونٹوں کی صف۔ اور ہماری تعداد بہت زیادہ تھی، جو چھ ہزار کو پہنچ گئی تھی اور ہمارے ایک طرف گھوڑ دستہ کے امیر خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ ہمارے گھڑ سوار ہماری پشتوں کی طرف مڑنے لگے اور کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ہمارے شاہ سوار سامنے سے ہٹ گئے اور بدو بھاگ گئے اور وہ لوگ بھی جن کو ہم جانتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازدی: اے مہاجرو! اے مہاجرو! پھر فرمایا: اے انصاریو! اے انصاریو! حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہتے ہیں جماعت کی روایت ہے۔ ہم نے کہا: لبیک،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے،اور ہم اللہ کی قسم! دشمن تک پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ نے ان کو شکست سے دو چار کر دیا، یہ سارا مال ہمارے قبضے میں آ گیا، پھر ہم طائف کی طرف چلے گئےاور اور چالیس دن تک ان کا محاصرہ کیا، پھر ہم مکہ واپس آئے اوروہاں پڑاؤ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سو اونٹ دینے لگے۔ پھرحدیث کا باقی حصہ بیان کیا، جیسا کہ اوپر کی روایات میں قتادہ، ابو تیاح اور ہشام بن زیدکی روایات میں گزر چکا ہے۔

Previous    14    15    16    17    18    19    20    21    22    Next