سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گہن ہوا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا، پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا، اور دیر تک کھڑے رہے، اور بہت قیام کیا، مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا (یہ ایک رکعت میں دو رکوع ہوئے۔ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے) پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک قیام کیا مگر قیام اول سے کم۔ پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم۔ پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے، مگر قیام اول سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، (یہ بھی دو رکوع ہوئے) پھر سجدہ کیا اور فارغ ہوئے اور آفتاب اتنے میں کھل گیا تھا۔ پھر لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور ان میں گہن نہیں لگتا کسی کی موت سے، نہ زندگی سے۔ پھر جب تم گہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس سے دعا کرو اور نماز پڑھو اور خیرات کرو۔ اے امت محمد! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا غلام یا باندی زنا کرے۔ اے محمد کی امت! اللہ کی قسم ہے جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے ہوتے تو بہت روتے اور تھوڑا ہنستے۔ سن لو! میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔“ اور مالک کی روایت میں یہ ہے کہ ”سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔“[صحيح مسلم/كِتَاب الْكُسُوفِ/حدیث: 2089]
ابو معاویہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے مانند) روایت کی اور اس میں یہ اضافہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "امابعد (حمد و صلاۃ کے بعد)!بلا شبہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں۔"اور یہ بھی اضافہ کیا: پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھا اٹھا ئے اور فرمایا: "اے اللہ!کیا میں نے (پیغام) اچھی طرح پہنچا دیا؟"
مصنف صاحب مذکورہ بالا روایت ایک دوسری سند سے لائے ہیں۔ اس میں یہ اضافہ ہے پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمد وصلاۃ کے بعد، سورج اور چاند اللہ کی قدرت وکاریگری کی نشانیوں میں سے ہیں۔“اور یہ بھی اضافہ ہے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا: ”اے اللہ! کیا میں نے بات پوری طرح پہنچا دی یعنی اپنا فرض ادا کردیا۔“
حرملہ بن یحییٰ نے مجھے حدیث بیان کی، (کہا) مجھے ابن وہب نے یونس سے خبر دی نیز ابو طاہر اور محمد بن سلمہ مرادی نے کہا: ابن وہب نے یو نس سے حدیث بیان کی انھوں نے ابن شہاب سے روا یت کی انھوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر مسجد میں تشریف لے گئے آپ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہی اور لو گ آپ کے پیچھے صف بستہ ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قراءت فر ما ئی پھر آپ نےاللہ اکبرکہا اور ایک لمبا رکو ع کیا پھر آپ نے اپنا سر اٹھا یا اور سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہا پھر آپ نے قیام کیا اور ایک طویل قراءت کی یہ پہلی (قراءت) سے کچھ کم تھی پھر اللہ اکبرکہا اور کہہ کر طویل رکوع کیا یہ پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہا پھر سجدہ کیا اور ابو طاہر نے (ثم سجدہ)(پھر آپنے سجدہ کیا) کے الفا ظ نہیں کہے۔پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا حتیٰ کہ چار رکوع اور چار سجدے مکمل کیے اور آپ کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہو گیا پھر آپ کھڑے ہو ئے اور لو گوں کو خطاب فرمایا اور اللہ تعا لیٰ کی (ایسی) ثنا بیان کی جو اس کے شایان شان تھی پھر فرمایا "سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں انھیں کسی کی مو ت کی وجہ سے گرہن لگتا ہے نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے جب تم انھیں (گرہن میں) دیکھو تو فوراًنماز کی طرف لپکو۔"آپ نے یہ بھی فرمایا: "اور نماز پڑھتے رہو یہاں تک کہ اللہ تمھارے لیے کشادگی کر دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اپنی اس جگہ (پر ہو تے ہو ئے) ہر وہ چیز دیکھ لی جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت کا ایک گچھا لینا چاہتا ہوں اس وقت جب تم نے مجھے دیکھا تھا کہ میں قدم آگے بڑھا رہا ہوں۔اور (محمد بن سلمہ) مرادی نے "آگے بڑھ رہا ہوں "کہا۔۔۔اور میں نے جہنم بھی دیکھی اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو ریزہ ریزہ کر رہا تھا یہ اس وقت جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹا۔اور میں نے جہنم میں عمرو بن لحی کو دیکھا جس نے سب سے پہلے بتوں کی نذر کی اونٹنیاں چھوڑیں۔" ابو طا ہر کی روایت "نماز کی طرف لپکو پر ختم ہو گئی انھوں نے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے آئے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہی اور لو گوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قراءت کی پھر الله اكبر کہ کر طویل رکو ع کیا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه رَبَّنَا وَلَكَ الحَمدُ کہا پھر کھڑے ہو گئے اور طویل قراءت کی جو پہلی (قراءت) سے کم تھی۔ پھر الله اكبر کہہ کر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه رَبَّنَا وَلَكَ الحَمدُ کہا پھر سجدے کیے اور ابو طاہر نے سجدہ کا ذکر نہیں کیا۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا حتیٰ کہ چار رکوع اور چار سجدے مکمل کر لیے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہو گیا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لو گوں کو خطاب فرمایا اور اللہ تعا لیٰ کے شایان شان اس کی ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی (قدرتِ قاہرہ اور جلال وجبروت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں وہ کسی کی مو ت کی وجہ سے گہناتے ہیں نہ کسی کی پیدائش پر۔ جب تم انھیں گرہن میں دیکھو تو فوراً نماز کی پناہ لو۔“ اور فرمایا: اور نماز پڑھو حتی کہ اللہ تمھاری مصیبت دور کر کے کشادگی کر دے“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنی اس جگہ وہ چیز دیکھ لی جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت کا ایک گچھا لینا چاہتا ہوں جس وقت تم نے مجھے دیکھا تھا کہ میں قدم آگے بڑھا رہا ہوں۔“ حرملہ نے اقدم کہا اور مرادی نے اتقدم، آگے بڑھ رہا ہوں) اور میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا ایک حصہ، دوسرے حصہ کو ریزہ ریزہ کر رہا ہے۔ جس وقت تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹا، اور میں نے جہنم میں ابن لحی کو دیکھا جس نے سب سے پہلے سائبہ کوچھوڑا۔“ ابوطاہر کی روایت ”فافزعوا إلى الصلاة“ فوراً نماز کی پناہ لو“ پر ختم ہوگئی۔ اس نے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا۔
ابو عمرو اوزاعی اور ان کے علاوہ د وسرے (راوی، دونوں میں سے ہرایک) نے کہا: میں نے ابن شہاب زہری سے سنا، وہ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دے رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کوگرہن لگ گیا تو آپ نے یہ اعلان کرنے والا (ایک شخص) بھیجاکہ"کہ نماز جمع کرنے والی ہے۔اس پر لوگ جمع ہوگئے، آپ آگے بڑھے، تکبیر تحریمہ کہی اور چار رکوعوں اور چار سجدوں کےساتھ دو رکعتیں پڑھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گہن لگ گیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ اعلان کرے ”نماز کے لیے حاضر ہو جاؤ“ لوگ جمع ہو گئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر تکبیر تحریمہ کہی اور دو رکعت میں چار رکوع اور چارسجدے کیے۔
عبدالرحمان بن نمر نے خبر دی کہ انھوں نے ابن شہاب سے سنا، وہ عروہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دے رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ الخسوف (چاند یاسورج گرہن کی نماز) میں بلند آوازسے قراءت کی اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کرکے نماز ادا کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ خسوف میں قرآت بلند آواز سے کی۔ دو رکعت نماز چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ ادا کی۔
۔ (عبدالرحمان بن نمر نے ہی کہا:) زہری نے کہا: کثیر بن عباس رضی اللہ عنہ نے (اپنے بھائی حضرت عبداللہ) ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔
محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے روایت کی، انھوں نے کہا: کثیر بن عباس رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے تھےکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سورج گرہن والے دن کی نماز (اسی طرح) بیان کرتےتھے جس طرح عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کسوف اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ جس طرح عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں۔
ابن جریج نے کہا: میں نے عطاء (بن ابی رباح) کو کہتے ہوئے سنا: میں نے عبید بن عمیر سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھ سے اس شخص نے حدیث بیان کی جنھیں میں سچا سمجھتاہوں۔ (عطاء نے کہا:) میرا خیال ہے ان کی مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کوگرہن لگ گیا تو آپ نے بڑا پُر مشقت قیام کیا۔سیدھے کھڑے ہوتے، پھر رکوع میں چلے جاتے، پھرکھڑے ہوتے۔پھر رکوع کرتے، پھر کھڑے ہوتے پھر رکوع کرتے، دو رکعتیں (تین) تین رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں، پھر آپ نے سلام پھیر ا تو سورج روشن ہوچکا تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو اللہ اکبرکہا کہتے اس کے بعد جب رکوع کرتے اور جب سر اٹھاتے تو" سمع اللہ لمن حمدہ " کہتے۔اسکے بعد آپ (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے۔اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: "سورج اور چاند نہ کسی کی موت پر بےنور ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کی زندگی پر بلکہ وہ اللہ کی نشانیاں ہیں، ان کے ذریعے سے وہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے، جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو حتیٰ کہ وہ روشن ہوجائیں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگ گیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا پُر مشقت قیام کیا۔ سیدھے کھڑے ہوتے، پھر رکوع میں چلے جاتے، پھر کھڑے ہوتے۔ پھر رکوع کرتے، پھر کھڑے ہوتے پھر رکوع کرتے، دو رکعت میں (ہر رکعت میں) تین رکوع اور چار سجدےکیے اس وقت سلام پھیرا جب سورج روشن ہو چکا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہا کرتے اس کے بعد جب رکوع کرتے اور جب سر اٹھاتے تو سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه رَبَّنَا کہتے۔ پھر خطبے کے لئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”سورج اور چاند نہ کسی کی موت پر بےنور نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی کی ولادت پر، بلکہ وہ اللہ کی (وحدانیت اور ربوبیت کے) نشانات میں سے ہیں، ان کے ان کو بے نور کر کے وہ اپنے بندوں کو (اپنی قوت و طاقت اور غضب سے) ڈراتا ہے۔ جب تم ان کو گہن لگا دیکھو تو اللہ کو یاد کرو حتیٰ کہ وہ روشن ہوجائیں۔“
قتادہ نے عطاء بن ابی رباح سے، انھوں نے عبید بن عمیر سے اور انھوں نے حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسوف میں) چھ رکوعوں اور چار سجدوں پر مشتمل نماز پڑھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز (کسوف) میں چھ رکوع اور چار سجدے کیے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
2. باب ذِكْرِ عَذَابِ الْقَبْرِ فِي صَلاَةِ الْخُسُوفِ:
سلیمان بن بلال نے یحییٰ (بن سعید) سے اور انھوں نے عمرہ سے روایت کی کہ ایک یہودی عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس مانگنے کے لئے آئی۔اس نے آکر (کہا: اللہ آپ کو عذاب قبر سے پناہ دے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں کو قبرمیں عذاب ہوگا؟عمرہ نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صبح کسی سواری پر سوار ہوکر نکلے تو سورج کوگرہن لگ گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں بھی عورتوں کے سات حجروں کے درمیان سے نکل کر مسجد میں آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے (اتر کر) نماز پڑھنے کی اس جگہ پرآئے جہاں آپ نماز پڑھایا کرتے تھے، آپ کھڑے ہوگئے اور لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر آپ نے لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، پھر (رکوع سے) سر اٹھایا اور طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے چھوٹا تھا۔اور پھر (رکوع سے) سر اٹھایا تو سورج روشن ہوچکا تھا، پھر (نماز سے فراغت کے بعد) آپ نے فرمایا: "میں نے تمھیں دیکھا ہے کہ تم قبروں میں دجال کی آزمائش کی طرح آزمائش میں ڈالے جاؤگے۔" عمرہ نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔
عمرہ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودی عورت، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس مانگنے کے لئے آئی۔ اور اس نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے پناہ میں رکھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کو قبرمیں عذاب ہو گا؟ عمرہ نے کہتی ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صبح کسی سواری پر سوار ہو کر نکلے تو سورج کو گہن لگ گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں بھی عورتوں کے ساتھ حجروں کے درمیان سے نکل کر مسجد میں آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر کر نماز گاہ جہاں آپ نماز پڑھاتے تھے تک پہنچے اور کھڑے ہو گئے اور لوگ بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دیر تک قیام کیا، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، پھر اٹھے (رکوع سے سر اٹھایا) اور طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے چھوٹا تھا۔ پھر رکوع کیا اور طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے چھوٹا تھا پھر رکوع سے سر اٹھایا (نماز سے فارغ ہوئےتو) سورج روشن ہو چکا تھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا: ”میں نے تمھیں دیکھا ہے کہ تم قبروں میں دجال کی آزمائش کی طرح ابتلاء اور آزمائش میں ڈالے جاؤ گے۔“ عمرہ کہتی ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔