الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ
نماز عیدین کے احکام و مسائل
1ق. باب:
1ق. باب: نماز عیدین کا بیان۔
حدیث نمبر: 2044
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، جميعا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: شَهِدْتُ صَلَاةَ الْفِطْرِ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، فَكُلُّهُمْ يُصَلِّيهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ يَخْطُبُ، قَالَ: فَنَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حِينَ يُجَلِّسُ الرِّجَالَ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ يَشُقُّهُمْ حَتَّى جَاءَ النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا سورة الممتحنة آية 12، فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ حِينَ فَرَغَ مِنْهَا: " أَنْتُنَّ عَلَى ذَلِكِ "، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ لَمْ يُجِبْهُ غَيْرُهَا مِنْهُنَّ: نَعَمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَا يُدْرَى حِينَئِذٍ مَنْ هِيَ، قَالَ: " فَتَصَدَّقْنَ "، فَبَسَطَ بِلَالٌ ثَوْبَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَلُمَّ فِدًى لَكُنَّ أَبِي وَأُمِّي، فَجَعَلْنَ يُلْقِينَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِمَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ.
حسن بن مسلم نے طاوس سے خبر دی انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روا یت کی انھوں نے کہا: میں عید الفطر کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاضر ہوا ہوں یہ سب خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے پھر خطبہ دیتے تھے ایک دفعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بلند جگہ سے) نیچے آئے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ میں (اب بھی) آپ کو دیکھ رہا ہوں جب آپ اپنے ہاتھ سے مردوں کو بٹھا رہے تھے پھر ان کے در میان میں سے راستہ بنا تے ہو ئے آگے بڑھے حتیٰ کہ عورتوں کے قریب تشریف لے آئے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے آپ نے (قرآن کا یہ حصہ تلاوت) فرمایا۔"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب آپ کے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ تعا لیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنا ئیں گی۔آپ نے یہ آیت تلاوت فر ما ئی حتیٰ کہ اس سے فارغ ہو ئے پھر فرمایا۔"تم اس پر قائم ہو؟ "تو ایک عورت نے (جبکہ) آپ کو اس کے علاوہ ان میں سے اور کسی نے جواب نہیں دیا کہا: ہاں اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !۔۔اس وقت پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کو ن ہے۔۔۔آپ نے فرمایا۔"تم صدقہ کرو۔۔۔اس پر بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا پھر کہنے لگے لاؤ تم سب پر میرے ماں باپ قربان ہوں!تو وہ اپنے بڑے بڑے چھلے اور انگوٹھیا ں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نماز فطر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ حاضر ہوا ہوں یہ سب نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے۔ پھر خطبہ دیتے تھے ایک دفعہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلندی سے نشیب میں آئے گویا کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں جب آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے لوگوں کو (مردوں کو) بٹھا رہے ہیں پھر ان کو درمیان سے چیرتے ہوئے آگے بڑھے حتیٰ کہ عورتوں کے پاس آ گئے اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب آپ کے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ تعا لیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گی۔ (سورہ ممتحنہ، آیت 12 پارہ 28)۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم مکمل آیت پڑھ کر فارغ ہوئے تو پھر فرمایا تم اس پر قائم ہو؟ تو ایک عورت نے کہا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ا سکے علاوہ ان میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ ہاں اے اللہ کے نبی! اس وقت پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کون ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کرو تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا۔ پھر کہا، لاؤتم پر میرے ماں باپ قربان۔ تو وہ اپنے چھلے اور انگوٹھیاں اتارکر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2045
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: " أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ "، قَالَ: " ثُمَّ خَطَبَ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، وَبِلَالٌ قَائِلٌ بِثَوْبِهِ فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْخَاتَمَ وَالْخُرْصَ وَالشَّيْءَ ".
سفیان بن عیینہ نے کہا: ہم سے ایوب نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا میں نے عطاء سے سنا انھوں نے کہا میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شہادت دیتا ہوں آپ نماز عید خطبہ سے پہلے پڑھی پھر آپ نے خطبہ دیا پھر آپ نے دیکھا کہ آپ نے عورتوں کو (اپنی بات) نہیں سنائی تو آپ ان کے پاس آئے اور ان کو یاد دہانی (تلقین) فر ما ئی اور انھیں نصیحت کی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا اور بلال رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا پھیلا ئے ہو ئے تھے کوئی عورت (اس کپڑے میں) انگوٹھی پھینکتی تھی (کوئی حلقے دارزیور (چھلے بالیاں کڑے کنگن) اور کوئی دوسری چیزیں ڈالتی تھی۔
عطاء کہتے ہیں، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شہادت دیتا ہوں آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز عید خطبہ سے پہلے پڑھی پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز عورتوں نے نہیں سنی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور ان کو تذکیر (یاد دہانی) کی اور انھیں نصیحت کی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہو ئے تھے عورتیں، انگوٹھی، بالی، چھلا اور دوسری چیزیں ڈالنے لگیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2046
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ . ح وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ أَيُّوبَبِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
حماد اور اسماعیل بن ابرا ہیم نے ایوب سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی۔
امام صاحب ایک دوسری سند سے ایوب کے واسطہ سے ایسی ہی روایت لائے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2047
وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ابْنُ رافع ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَامَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ فَلَمَّا فَرَغَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ وَأَتَى النِّسَاءَ، فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ، وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِينَ النِّسَاءُ صَدَقَةً، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: " زَكَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ؟ " قَالَ: " لَا وَلَكِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ بِهَا حِينَئِذٍ، تُلْقِي الْمَرْأَةُ فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ وَيُلْقِينَ "، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: " أَحَقًّا عَلَى الْإِمَامِ الْآنَ أَنْ يَأْتِيَ النِّسَاءَ حِينَ يَفْرُغُ فَيُذَكِّرَهُنَّ؟ " قَالَ: " إِي لَعَمْرِي إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ، وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَ ذَلِكَ ".
ابن جریج نے کہا: ہمیں عطاء نے حجرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہا: میں نے ان (جابر رضی اللہ عنہ) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن (نماز کے لیے) کھڑے ہو ئے پھر نماز پڑھا ئی چنانچہ آپ نے خطبے سے پہلے نماز سے ابتدا کی پھر لو گوں کو خطاب فرمایا۔جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ سے) فارغ ہو ئے تو (چبوترے سے) اتر کر عورتوں کے پاس آئے انھیں تذکیر و نصیحت کی جبکہ آپ بلال رضی اللہ عنہ کے بازوکا سہارا لیے ہو ئے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا پھیلا ئے ہو ئے تھے عورتیں اس میں صدقہ ڈال رہی تھیں (ابن جریج نے کہا:) میں نے عطاء سے پوچھا فطر کے دن کا صدقہ (ڈال رہی تھیں؟) انھوں نے کہا: نہیں اس وقت (اپنا) صدقہ کر رہی تھیں (کوئی عورت چھلا ڈالتی تھی (اسی طرح یکے بعد دیگر ے (ڈال رہی تھیں اور ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے (پھر) پوچھا: کیا اب بھی امام کے لیے لا زم ہے کہ جب (مردوں کے خطبے سے) فارغ ہو تو عورتوں کو تلقین اور نصیحت کرے؟ انھوں نے کہا: ہاں مجھے اپنی زندگی کی قسم! یہ ان پر عائد شدہ) حق ہے انھیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور خطبہ سے پہلے نماز کی ابتدا کی پھر لو گوں کو خطاب فرمایا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے تو (اتر کر اونچائی سے) عورتوں کے پاس آئے انھیں تذکیر و نصیحت کی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہارا لیے ہو ئے تھے یا ان کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے عورتیں اس میں صدقہ ڈال رہی تھیں ابن جریج نے عطاء سے پوچھا، صدقہ فطر ڈال رہی تھیں؟ انھوں نے کہا: نہیں اس وقت نیا صدقہ کر رہی تھیں عورتیں چھلے (بڑی انگوٹھیاں) ڈال رہی تھیں اسی طرح یکے بعد دیگرے ڈال رہی تھیں۔ ابن جریج کہتے ہیں میں نے عطاء سے پوچھا: کیا اب بھی امام کے لیے لازم ہے کہ (مردوں کے خطبہ سے) فارغ ہو کر انہیں تلقین اور نصیحت کرے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ میری جان کی قسم! یہ ان کے لیے لازم ہے، انھیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے؟
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2048
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، ثُمَّ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ فَأَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَحَثَّ عَلَى طَاعَتِهِ وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ، فَقَالَ: " تَصَدَّقْنَ فَإِنَّ أَكْثَرَكُنَّ حَطَبُ جَهَنَّمَ "، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنْ سِطَةِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ، فَقَالَتْ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ الشَّكَاةَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ "، قَالَ: فَجَعَلْنَ يَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِيِّهِنَّ، يُلْقِينَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ مِنْ أَقْرِطَتِهِنَّ وَخَوَاتِمِهِنَّ.
عبد الملک بن ابی سلیمان نے عطاء سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روا یت کی انھوں نے کہا: میں عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں حاضر ہوا آپ نے خطبے سے پہلے اذان اور تکبیر کے بغیر نماز سے ابتدا کی پھر بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہو ئے اللہ کے تقوے کا حکم دیا اس کی اطاعت پر ابھا را لو گو ں کو نصیحت کی اور انھیں (دین کی بنیادی باتوں کی) یاد دہانی کرا ئی پھر چل پڑے حتیٰ کہ عورتوں کے پاس آگئے (تو) انھیں وعظ و تلقین (تذکیر) کی اور فرمایا۔"صدقہ کرو کیونکہ تم میں اسے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں۔"عورتوں کے در میان سے ایک بھلی سیاہی مائل رخساروں والی عورت نے کھڑے ہو کر پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیوں؟آپ نے فرمایا: اس لیے کہ تم شکا یت بہت کرتی ہو اور اپنے رفیق زندگی کی ناشکری کرتی ہو۔ (جا بر رضی اللہ عنہ نے) کہا اس پردہ عورتیں اپنے زیورات سے صدقہ کرنے لگیں وہ بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگھوٹھیاں ڈالنے لگیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں حاضر ہوا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے اذان اور تکبیر کے بغیر نماز سے ابتدا کی پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اللہ کی حدود کی پابندی کا حکم دیا۔ اس کی اطاعت پر آمادہ فرمایا اور لو گو ں کو نصیحت کی اور انھیں یاد دہانی (تذکیر) کی۔ پھر چل پڑے حتیٰ کہ عورتوں کے پاس آ گئے انھیں وعظ و تذکیر کی اور فرمایا: صدقہ کرو کیونکہ تمہاری اکثریت جہنم کا ایندھن ہے عورتوں کے در میان سے ایک سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑی ہوئی ا س نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیوں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم شکوہ و شکا یت بہت کرتی ہو اور اپنے رفیق زندگی کی ناشکری کرتی ہو۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں وہ اپنے زیورات سے صدقہ کرنے لگیں وہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگھوٹھیاں ڈال رہی تھیں۔ (اقرط، قرط کی جمع ہے بالیاں جو کانوں میں ڈالتی ہیں۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2049
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَا: لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحَى، ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ حِينٍ عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرَنِي، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، " أَنْ لَا أَذَانَ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ حِينَ يَخْرُجُ الْإِمَامُ، وَلَا بَعْدَ مَا يَخْرُجُ، وَلَا إِقَامَةَ وَلَا نِدَاءَ وَلَا شَيْءَ لَا نِدَاءَ يَوْمَئِذٍ وَلَا إِقَامَةَ ".
محمد بن رافع نے کہا: ہم سے عبد الرزاق نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی انھوں نے کہا: مجھے عطاء نے حضرت ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے خبر دی ان دونوں نے کہا: عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن اذان نہیں دی جا تی تھی (ابن جریج نے کہا: کہ) میں نے کچھ عرصے بعد اس کے بارے میں عطاء سے پھر پو چھا تو انھوں نے مجھے جا بر رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ عید الفطر کے دن اذان نہیں ہے نہ اس وقت جب امام نکلے اور نہ نکلنے کے بعدنہ اقامت ہے نہ اعلا ن اور نہ کوئی اور چیز اس د ن نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔
حضرت ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیان کرتے ہیں، عید الفطر کے دن اذان نہیں دی جاتی تھی اور نہ ہی عید الاضحیٰ کے دن۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد اس کے بارے میں عطاء سے پھر پوچھا تو انھوں نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سنائی کہ عید الفطر کے دن اذان نہیں ہے امام کے نکلتے وقت اور نہ نہ ہی نکلنے کے بعد، نہ تکبیر ہے اور نہ پکار و صدا اور نہ کوئی اور چیز، نہ اس دن اذان اور نہ اقامت۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2050
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ أَوَّلَ مَا بُويِعَ لَهُ، " أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ فَلَا تُؤَذِّنْ لَهَا، قَالَ: فَلَمْ يُؤَذِّنْ لَهَا ابْنُ الزُّبَيْرِ يَوْمَهُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مَعَ ذَلِكَ إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ، وَإِنَّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يُفْعَلُ، قَالَ: فَصَلَّى ابْنُ الزُّبَيْرِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ".
۔ محمد بن رافع نے کہا: ہمیں عبد الرزاق نے حدیث سنا ئی کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا: مجھے عطاء نے خبر دی کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے آغاز ہی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ عید الفطرکے دن نماز (عید کے لیے اذان نہیں دی جا تی تھی لہذا آپ اس کے لیے اذان نہ کہلوائیں ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس اذان نہ کہلوائی اور اس کے ساتھ یہ پیغام بھی بھیجا کہ خطبہ نماز کے بعد ہے اور (عہد نبوی اور خلا فت راشدہ میں) ایسے ہی کیا جا تا تھا (عطاء نے) کہا: تو ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے نماز خطبے سے پہلے پڑھا ئی۔
حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی گئی تو آغاز ہی میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ واقعہ یہ ہے کہ عید الفطرکے دن نماز کے لیے اذان نہیں دی جا تی تھی لہٰذا آپ اس کے لیے اذان نہ کہلوائیں تو ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس اذان نہ کہلوائی اور اس کے ساتھ یہ پیغام بھی بھیجا کہ خطبہ نماز کے بعد ہے اور ایسے ہی کیا جا تا تھا تو ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نماز خطبے سے پہلے پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2051
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ ".
حضرت جا بر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید ین کی نماز ایک یا دو دفعہ پڑھی ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدین کی نماز ایک دو دفعہ نہیں کئی مرتبہ بلا اذان اور اقامت کے پڑھی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2052
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا يُصَلُّونَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ".
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ عید ین کی نماز خطبے سے پہلے پڑھتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین نماز عیدین خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدیث نمبر: 2053
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ، فَيَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا صَلَّى صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ قَامَ، فَأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِي مُصَلَّاهُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ حَاجَةٌ بِبَعْثٍ ذَكَرَهُ لِلنَّاسِ، أَوْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ أَمَرَهُمْ بِهَا، وَكَانَ، يَقُولُ: " تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا "، وَكَانَ أَكْثَرَ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَاءُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، فَخَرَجْتُ مُخَاصِرًا مَرْوَانَ حَتَّى أَتَيْنَا الْمُصَلَّى، فَإِذَا كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ قَدْ بَنَى مِنْبَرًا مِنْ طِينٍ وَلَبِنٍ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُنَازِعُنِي يَدَهُ كَأَنَّهُ يَجُرُّنِي نَحْوَ الْمِنْبَرِ، وَأَنَا أَجُرُّهُ نَحْوَ الصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ مِنْهُ، قُلْتُ: أَيْنَ الِابْتِدَاءُ بِالصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: لَا يَا أَبَا سَعِيدٍ قَدْ تُرِكَ مَا تَعْلَمُ، قُلْتُ: كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَأْتُونَ بِخَيْرٍ مِمَّا أَعْلَمُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روا یت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن تشریف لا تے تو نماز سے آغاز فرماتے اور جب اپنی نماز پڑھ لیتے اور سلام پھیر تے تو کھڑے ہو جا تے لوگوں کی طرف رخ فرماتے جبکہ لو گ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں بیٹھے ہو تے اگر آپ کو کوئی لشکر بھیجنے کی ضرورت ہو تی تو اس کا لو گو ں کے سامنے ذکر فرماتے اور اگر آپ کو اس کے سوا کوئی اور ضرورت ہوتی تو انھیں اس کا حکم دیتے اور فرمایا کرتے "صدقہ کرو صدقہ کرو صدقہ کرو زیادہ صدقہ عورتیں دیا کرتی تھیں پھر آپ واپس ہو جا تے اور یہی معمول چلتا رہا حتیٰ کہ مردان بن حکم کا دور آگیا میں اس کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نکلا حتیٰ کہ ہم عید گا ہ میں پہنچ گئے تو دیکھا کہ کثیر بن صلت نے وہاں مٹی (کے گا رے) اور اینٹوں سے منبر بنا یا ہو اتھا تو اچانک مردان کا ہا تھ مجھ سے کھنچا تا نی کرنے لگا جیسے وہ مجھے منبر کی طرف کھنچ رہا ہو اور میں اسے نماز کی طرف کھنچ رہا ہوں جب میں نے اس کی طرف سے یہ بات دیکھی تو میں نے کہا: نماز سے آغاز (کا مسنون کا طریقہ) کہاں ہے؟ اس نے کہا: اے ابو سعید!نہیں جو آپ جا نتے ہیں اسے ترک کر دیا گیا ہے میں نے کہا: ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر طریقہ نہیں لاسکتے۔۔۔ابو سعید رضی اللہ عنہ نے تین دفہ کہا، پھر چل دئیے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن نکلتے تھے تو نماز سے آغاز فرماتے اور جب اپنی نماز پڑھ لیتے اور سلام پھیرتے تو کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہو جاتے جبکہ لو گ اپنی نماز گاہ میں بیٹھے رہتے، اگر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی لشکر بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو اس کا لوگوں کے تذکرہ فرماتے اور اس کے سوا کوئی اور ضرورت ہوتی تو انھیں اس کا حکم دیتے اور فرمایا کرتے صدقہ کرو صدقہ کرو صدقہ کرو زیادہ صدقہ عورتیں دیا کرتی تھیں پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم واپس آ جاتے اور یہی معمول قائم رہا۔ حتیٰ کہ مروان بن حکم کا دور آ گیا تو میں اس کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نکلا حتیٰ کہ ہم عید گا ہ میں پہنچ گئے تو دیکھا کہ کثیر بن صلت نے وہاں مٹی اور اینٹوں سے منبر بنایا ہوا تھا تو مروان مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگا گویا کہ وہ مجھے منبر کی طرف کھنچ رہا ہے اور میں اسے نماز کی طرف کھنچ رہا ہوں جب میں نے اس کا یہ فعل دیکھا تو میں نے کہا۔ نماز آغاز کا عمل کہاں گیا؟ تو اس نے کہا۔ اے ابو سعید! ایسے نہیں ہے۔ آپ جو جانتے ہیں اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ میں نے کہا ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر طریقہ نہیں نکال سکتے۔ تین دفعہ کہا اور پھر ہٹ گئے۔ (مخاصرا، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلنا۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة


1    2    3    Next