حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو ان کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دو مینڈھوں سے ان کا عقیقہ کرنا چاہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی اس کا عقیقہ نہ کرو بلکہ اس کے سر کے بال منڈوا کر اس کے وزن کے برابر چاندی اللہ کے راستے میں صدقہ کر دو، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا (اور عقیقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا)۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27183]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن محمد وشريك، لكنه توبع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو بال گوندھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27184]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وقد اختلف فى تعيين الرجل المبهم، واختلف فى إسناده على مخول
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں کسی لشکر میں شامل تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جا کر میرے پاس میمونہ کو بلا کر لاؤ“، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں لشکر میں شامل ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اپنی بات دہرائی، میں نے اپنا عذر دوبارہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس چیز کو پسند نہیں کرتے جسے میں پسند کرتا ہوں؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ، چنانچہ میں جا کر انہیں بلا لایا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27185]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صح سماع الحسن بن على من جده أبى رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی پیدائش ہوئی تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے کان میں اذان دی۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27186]
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی دن میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے فراغت کے بعد غسل فرماتے رہے، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر آپ ایک ہی مرتبہ غسل فرما لیتے (تو کوئی حرج تھا؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طریقہ زیادہ پاکیزہ عمدہ اور طہارت والا ہے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27187]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وقد تفرد به عبدالرحمن بن أبى رافع و عمته سلمي، وهما ممن لا يحتمل تفردهما، بل خالفا حديث أنس الصحيح
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابورافع! مدینہ میں جتنے کتے پائے جاتے ہیں ان سب کو مار ڈالو“، وہ کہتے ہیں کہ میں نے انصار کی کچھ خواتین کے جنت البقیع میں کچھ درخت دیکھے، ان خواتین کے پاس بھی کتے تھے، وہ کہنے لگیں: اے ابورافع! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مردوں کو جہاد کے لئے بھیج دیا، اللہ کے بعد اب ہماری حفاظت یہ کتے ہی کرتے ہیں اور واللہ کسی کو ہمارے پاس آنے کی ہمت نہیں ہوتی، حتیٰ کہ ہم میں سے کوئی عورت اٹھتی ہے تو یہ کتے اس کے اور لوگوں کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں، اس لئے آپ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کر دو، چنانچہ انہوں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابورافع! تم انہیں قتل کر دو، خواتین کی حفاظت اللہ خود کرے گا۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27188]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن ثبت سماع سالم بن عبدالله من أبى رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن کی آواز سنتے تو وہی جملے دہراتے جو وہ کہہ رہا ہوتا تھا، لیکن جب وہ «حي على الصلوة» اور «حي على الفلاح» پر پہنچتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم «لا حول ولا قوة الا بالله» کہتے تھے۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27189]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك وعاصم بن عبيد الله، و على بن الحسين لم يدرك أبا رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوبصورت اور خصی مینڈھوں کی قربانی فرمائی اور فرمایا: ”ان میں سے ایک تو ہر اس شخص کی جانب سے ہے جو اللہ کی وحدانیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت کی گواہی دیتا ہو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ہے۔“ راوی کہتے ہیں کہ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کفایت فرمائی۔ [مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27190]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، على بن الحسين لم يدرك أبا رافع، ولضعف عبدالله بن محمد، وقد اضطرب فيه
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز عصر پڑھنے کے بعد بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنو عبد الاشہل کے یہاں چلے جاتے تھے اور ان کے ساتھ باتیں فرماتے تھے اور مغرب کے وقت وہاں سے واپس آتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے نماز مغرب کے لئے واپس آ رہے تھے کہ جنت البقیع سے گزر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: ”تم پر افسوس ہے۔“(میں چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا اس لئے)، میرے ذہن پر اس بات کا بہت بوجھ ہوا اور میں پیچھے ہو گیا کیونکہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد میں ہی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا؟ چلتے رہو۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا مطلب؟“ میں نے عرض کیا کہ آپ نے مجھ پر (دومرتبہ) «تف» کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، دراصل یہ تو میں نے فلاں آدمی کی قبر پر کہا تھا، جسے میں نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے فلاں قبیلے میں بھیجا تھا، اس نے خیانت کر کے ایک چادر چھپا لی تھی، اب ویسے ہی آگ کی چادرا سے پہنائی جا رہی ہے۔“[مسند احمد/مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ/حدیث: 27192]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال منبوذ، و فى سماع الفضل بن عبيد الله بن أبى رافع من جده نظر