حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں نے اپنا ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر رکھ کر یہ دعاء کی کہ اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما، تو ہی طبیب ہے اور تو ہی شفاء دینے والا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑا کر خود یہ دعا فرما رہے تھے کہ مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24891]
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ابن جدعان زمانہ جاہلیت میں مہمان نوازی کرتا، قیدیوں کو چھڑاتا، صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا، کیا یہ چیزیں اسے فائدہ پہنچا سکیں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! نہیں، اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ پروردگار! روز جزاء کو میری خطائیں معاف فرما دینا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24892]
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ اپنے بعد مجھے تمہارے معاملات کی فکر پریشان کرتی ہے اور تم پر صبر کرنے والے ہی صبر کریں گے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24893]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لأجل عمر بن أبى سلمة
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھتے کہ ہوا تیز ہوتی جا رہی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل جاتا تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24894]
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس مرض میں " جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے " ارشاد فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت نازل ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف یہ اندیشہ تھا کہ ان کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنایا جائے ورنہ قبر مبارک کو کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہ تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24895]
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولاء یعنی غلام کی وراثت تو اسی کا حق ہے جو غلام کو آزاد کرے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24896]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لأجل عمر بن أبى سلمة
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد کے قریب پانی سے وضو فرمالیتے تھے اور ایک صاع کے قریب پانی سے غسل فرمالیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24897]
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد کے قریب پانی سے وضو فرمالیتے تھے اور ایک صاع کے قریب پانی سے غسل فرمالیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24898]
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمام ازواج مطہرات جمع تھیں، انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ سے آکر ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا ہاتھ تم میں سب سے زیادہ لمبا ہوگا، ہم ایک لکڑی لے کر اس سے اپنے ہاتھوں کی پیمائش کرنے لگے، حضرت سودہ بنت زمعہ کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا نکلا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جلد ہی حضرت سودہ ان سے جاملیں، بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ خیرات میں کشادگی تھی اور وہ صدقہ خیرات کرنے کو پسند کرنے والی خاتون تھیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24899]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وذكر سودة فيه خطأ، والصواب أنها زينب ، خ: 1420، م: 2452
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات یا دن کے جس حصے میں بھی سو کر بیدار ہوتے تو مسواک ضرور فرماتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24900]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد، ولجهالة أم محمد