الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مسند احمد کل احادیث (27647)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند احمد
أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ
حدیث نمبر: 18159
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، " فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ جِئْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ، قَالَ: فَلَمْ يَقْدِرْ أَنْ يُخْرِجَ يَدَيْهِ مِنْ كُمَّيْهَا، فَأَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ أَسْفَلِهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ" .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت کی پھر میں پانی کا ایک برتن لے کر حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے وضو کرکے موزوں پر مسح کیا۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18159]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والظاهر أن بين أبى الضحى والمغيرة مسروقاً
حدیث نمبر: 18160
قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ زِيَادٍ من وَلَدِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ لِحَاجَتِهِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: فَذَهَبْتُ مَعَهُ بِمَاءٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَكَبْتُ عَلَيْهِ مَاءً، " فَغَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُخْرِجُ يَدَيْهِ مِنْ كُمِّ جُبَّتِهِ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ مِنْ ضِيقِ كُمِّ الْجُبَّةِ، فَأَخْرَجَهَا مِنْ تَحْتِ جُبَّتِهِ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ، وَمَسَحَ رَأْسَهُ، وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ يَؤُمُّهُمْ وَقَدْ صَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَحْسَنْتُمْ" ..
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے میں بھی پانی لے کر ساتھ چلا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے کر حاضر ہوا اور پانی ڈالتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ دھویا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے اور چہرہ اور ہاتھ دھوئے پیشانی کی مقدار سر پر مسح کیا اپنے عمامے پر مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا اور واپسی کے لئے سوار ہوگئے جب ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو نماز کھڑی ہوچکی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر ایک رکعت پڑھا چکے تھے اور دوسری رکعت میں تھے میں انہیں بتانے کے لئے جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روک دیا اور ہم نے جو رکعت پائی وہ تو پڑھ لی اور جو رہ گئی تھی اسے (سلام پھرنے کے بعد ادا کیا۔ اور نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اچھا کیا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18160]
حكم دارالسلام: حديث صحيح على وهم فى إسناده، قوله: عباد بن زياد من ولد المغيرة خطأ، والصواب: ليس هو من ولد المغيرة، بل هو من ولد زياد بن أبى سفيان، وعباد هذا مجهول، وإسقاط مالك عروة وحمزة من الإسناد بين عباد وبين المغيرة ، وقوله: «عن أبيه» خطأ
حدیث نمبر: 18161
قال عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَاه مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ زِيَادٍ مِنْ وَلَدِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ مُصْعَبٌ: وَأَخْطَأَ فِيهِ مَالِكٌ خَطَأً قَبِيحًا.
[مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18161]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، فقول مالك: «عباد بن زياد من ولد المغيرة .....» خطاً، راجع ما قبله
حدیث نمبر: 18162
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ الْحَدَّادُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجِنَازَةِ، وَالْمَاشِي حَيْثُ شَاءَ مِنْهَا، وَالطِّفْلُ يُصَلَّى عَلَيْهِ" .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے پیدل چلنے والے کی مرضی ہے (آگے چلے یا پیچھے دائیں جانب چلے یا بائیں جانب) اور نابالغ بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18162]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى رفعه ووقفه
حدیث نمبر: 18163
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ ، " فَلَمَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ، فَسَبَّحَ بِهِ مَنْ خَلْفَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ قُومُوا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا صَنَعَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
زیاد بن علاقہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد وہ بیٹھے نہیں بلکہ کھڑے ہوگئے مقتدیوں نے سبحان اللہ کہا لیکن انہوں نے اشارہ سے کہا کہ کھڑے ہوجاؤ جب نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ اسی طرح کرتے تھے۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18163]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى رفعه ووقفه
حدیث نمبر: 18164
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ الْجَامِعِ، فَإِذَا عَمْرُو بْنُ وَهْبٍ الثَّقَفِيُّ قَدْ دَخَلَ مِنَ النَّاحِيَةِ الْأُخْرَى، فَالْتَقَيْنَا قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ الْمَسْجِدِ، فَابْتَدَأَنِي بِالْحَدِيثِ، وَكَانَ يُحِبُّ مَا سَاقَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ، فَابْتَدَأَنِي بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ: كُنَّا عِنْدَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، فَزَادَهُ فِي نَفْسِي تَصْدِيقًا الَّذِي قَرَّبَ بِهِ الْحَدِيثَ، قَالَ: قُلْنَا: هَلْ أَمَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ غَيْرَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، كُنَّا فِي سَفَرِ كَذَا وَكَذَا، فَلَمَّا كَانَ فِي السَّحَرِ، ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُنُقَ رَاحِلَتِهِ، وَانْطَلَقَ فَتَبِعْتُهُ، فَتَغَيَّبَ عَنِّي سَاعَةً، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ:" حَاجَتَكَ؟" فَقُلْتُ: لَيْسَتْ لِي حَاجَةٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" هَلْ مِنْ مَاءٍ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ، " فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يَحْسِرُ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، وَكَانَتْ عَلَيْهِ جُبَّةٌ لَهُ شَامِيَّةٌ، فَضَاقَتْ، فَأَدْخَلَ يَدَيْهِ، فَأَخْرَجَهُمَا مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ، وَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَمَسَحَ عَلَى الْعِمَامَةِ، وَعَلَى الْخُفَّيْنِ. ثُمَّ لَحِقْنَا النَّاسَ وَقَدْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ يَؤُمُّهُمْ، وَقَدْ صَلَّى رَكْعَةً، فَذَهَبْتُ لِأُوذِنَهُ، فَنَهَانِي، فَصَلَّيْنَا الَّتِي أَدْرَكْنَا، وَقَضَيْنَا الَّتِي سُبِقْنَا بِهَا" ..
عمرو بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ کسی شخص نے ان سے پوچھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس امت میں کوئی اور بھی ایسا شخص ہوا ہے جس کی امامت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے خیمے کا دروازہ بجایا میں سمجھ گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے جانا چاہتے ہیں چناچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل پڑا یہاں تک کہ ہم لوگ چلتے چلتے لوگوں سے دور چلے گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور قضاء حاجت کے لئے چلے گئے اور میری نظروں سے غائب ہوگئے اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتا تھا تھوڑی دیر گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور فرمایا مغیرہ! تم بھی اپنی ضرورت پوری کرلو میں نے عرض کیا کہ مجھے اس وقت حاجت نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! اور یہ کہہ کر میں وہ مشکیزہ لانے چلا گیا جو کجاوے کے پچھلے حصے میں لٹکا ہوا تھا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے حاضر ہوا اور پانی ڈالتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح دھوئے پھر چہرہ دھویا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے اور چہرہ اور ہاتھ دھوئے پیشانی کی مقدار سر پر مسح کیا اپنے عمامے پر مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا اور واپسی کے لئے سوار ہوگئے جب ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو نماز کھڑی ہوچکی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر ایک رکعت پڑھا چکے تھے اور دوسری رکعت میں تھے میں انہیں بتانے کے لئے جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روک دیا اور ہم نے جو رکعت پائی وہ تو پڑھ لی اور جو رہ گئی تھی اسے (سلام پھرنے کے بعد) ادا کیا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18164]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 18165
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ وَهْبٍ ، يَعْنِي فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
[مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18165]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، لعل ابن سيرين سمع الحديث من رجل، عن عمرو، ثم لقيه، فسمع منه
حدیث نمبر: 18166
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَزَالُ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ قتال کرتی اور لوگوں پر غالب رہے گی یہاں تک کہ جب ان کے پاس اللہ کا حکم آئے گا تب بھی وہ غالب ہی ہوں گے۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18166]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7311، م: 1921
حدیث نمبر: 18167
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ لِي:" أَيْ بُنَيَّ، وَمَا يُنْصِبُكَ مِنْهُ؟ إِنَّهُ لَنْ يَضُرَّكَ". قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَهُ جِبَالَ الْخُبْزِ وَأَنْهَارَ الْمَاءِ! فَقَالَ:" هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ ذَاكَ" .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دجال کے متعلق جتنی کثرت کے ساتھ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھے ہیں کسی نے نہیں پوچھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ وہ تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچاسکے گا میں نے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں اس کے سا تھا ایک نہر بھی ہوگی اور فلاں فلاں چیز بھی ہوگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ کے نزدیک اس سے بہت حقیر ہے۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18167]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 7122، م: 2152
حدیث نمبر: 18168
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، وَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي، وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ اللَّهُ الْمُرْسَلِينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِدْحَةٌ مِنَ اللَّهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ" ..
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو دیکھ لو تو تلوار سے اس کی گردن اڑادوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو فرمایا کہ تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ بخدا! میں ان سب سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیور ہے اسی بناء پر اس نے ظاہری اور باطنی فواحش کو حرام قرار دیا اور اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی شخص نہیں ہوسکتا اللہ سے زیادہ عذر کو پسند کرنے والا کوئی شخص نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ عبیداللہ قواریری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے زیادہ سخت حدیث فرقہ جہمیہ کے نزدیک کوئی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے اللہ سے زیادہ تعریف پسند ہو۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18168]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6846 ، م: 1499

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next