ایک غفاری عورت رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اپنے کجاوے کے حقیبہ ۱؎ پر بٹھایا پھر اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک مسلسل چلتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بٹھا دیا، میں کجاوے کے حقیبہ پر سے اتری تو اس میں حیض کے خون کا نشان پایا، یہ میرا پہلا حیض تھا جو مجھے آیا، وہ کہتی ہیں: میں شرم کی وجہ سے اونٹنی کے پاس سمٹ گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حال دیکھا اور خون بھی دیکھا تو فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا؟ شاید حیض آ گیا ہے“، میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو ٹھیک کر لو (کچھ باندھ لو تاکہ خون باہر نہ نکلے) پھر پانی کا ایک برتن لے کر اس میں نمک ڈال لو اور حقیبہ میں لگے ہوئے خون کو دھو ڈالو، پھر اپنی سواری پر واپس آ کر بیٹھ جاؤ“۔ وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو فتح کیا تو مال فی میں سے ہمیں بھی ایک حصہ دیا۔ وہ کہتی ہیں: پھر وہ جب بھی حیض سے پاکی حاصل کرتیں تو اپنے پاکی کے پانی میں نمک ضرور ڈالتیں، اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو اپنے غسل کے پانی میں بھی نمک ڈالنے کی وصیت کر گئیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 313]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18381)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/380) (ضعیف)» (اس کی راویہ اُمیہ بنت ابی الصلت مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: ہر وہ چیز جو اونٹ کے پیچھے کجاوہ کے آخر میں باندھ دی جائے حقیبہ کہلاتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن (تقدم: 47) وأمية بنت أبي الصلت: لا يعرف حالھا (تقريب: 8538) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 26
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء (اسماء بنت شکل انصاریہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جب ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو تو وہ کس طرح غسل کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیر کی پتی ملا ہوا پانی لے کر وضو کرے، پھر اپنا سر دھوئے، اور اسے ملے یہاں تک کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، پھر اپنے سارے جسم پر پانی بہائے، پھر روئی کا پھاہا لے کر اس سے طہارت حاصل کرے“۔ اسماء نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس (پھاہے) سے طہارت کس طرح حاصل کروں؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کنایۃً کہی وہ میں سمجھ گئی، چنانچہ میں نے ان سے کہا: تم اسے خون کے نشانات پر پھیرو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 314]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انصار کی عورتوں کا ذکر کیا تو ان کی تعریف کی اور ان کے حق میں بھلی بات کہی اور بولیں: ”ان میں سے ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی“، پھر راوی نے سابقہ مفہوم کی حدیث بیان کی، مگر اس میں انہوں نے «فرصة ممسكة»(مشک میں بسا ہوا پھاہا) کہا۔ مسدد کا بیان ہے کہ ابوعوانہ «فرصة»(پھاہا) کہتے تھے اور ابوالاحوص «قرصة»(روئی کا ٹکڑا) کہتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 315]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشک لگا ہوا روئی کا پھاہا (لے کر اس سے پاکی حاصل کرو)“، اسماء نے کہا: اس سے میں کیسے پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! اس سے پاکی حاصل کرو“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے سے (اپنا چہرہ) چھپا لیا۔ اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل جنابت کے بارے میں بھی دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پانی لے لو، پھر اس سے خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرو، پھر اپنے سر پر پانی ڈالو، پھر اسے اتنا ملو کہ پانی بالوں کی جڑوں میں پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانی بہاؤ“۔ راوی کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں انہیں دین کا مسئلہ دریافت کرنے اور اس کو سمجھنے میں حیاء مانع نہیں ہوتی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 316]