ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، پھر آگے اسی مفہوم کی حدیث ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشک لگا ہوا روئی کا پھاہا (لے کر اس سے پاکی حاصل کرو)“، اسماء نے کہا: اس سے میں کیسے پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! اس سے پاکی حاصل کرو“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے سے (اپنا چہرہ) چھپا لیا۔ اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل جنابت کے بارے میں بھی دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پانی لے لو، پھر اس سے خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرو، پھر اپنے سر پر پانی ڈالو، پھر اسے اتنا ملو کہ پانی بالوں کی جڑوں میں پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانی بہاؤ“۔ راوی کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں انہیں دین کا مسئلہ دریافت کرنے اور اس کو سمجھنے میں حیاء مانع نہیں ہوتی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 316]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 316
316۔ اردو حاشیہ: ➊ عورتوں اور مردوں کے غسل کا ایک ہی طریقہ ہے الا یہ عورتوں کو غسل جنابت میں بندھے بال نہ کھولنے کی اجازت ہے، مگر غسل حیض میں ان کو کھولنے کا حکم ہے۔ اسی طرح ان کے لیے خون کی جگہ پر کستوری یا خوشبو کا استعمال کرنا بھی مستحب ہے۔ ➋ بیری کا پانی، خطمی، صابن یا شیمپو کا استعال بھی مباحات میں سے ہے اور عورتوں کے لیے زیادہ افضل ہے۔ ➌ مرد ہو یا عورت ہر ایک کے لیے لازم ہے کہ اہل علم سے مخصوص مخفی مسائل بھی دریافت کیا یا کروایا کریں۔ ان مسائل میں خاموشی بعض اوقات انسان کو حرام میں ڈال سکتی ہے اور اہل علم پر بھی لازم ہے کہ اشارے کنائے کی احسن زبان میں حقائق بیان کرنے سے گریز نہ کیا کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 316