ہشام کے والد (عروہ) نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب میرے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) زخمی ہوئے تو میں ان کے پاس موجود تھا، لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا: "اللہ آپ کو اچھی جزا دے!" انہوں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں (بیک وقت) رغبت رکھنے والا اور ڈرنے والا ہوں۔ لوگوں نے کہا: آپ کسی کو اپنا (جانشیں) بنا دیجیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زندگی میں بھی تمہارے معاملات کا بوجھ اٹھاؤں اور مرنے کے بعد بھی؟ مجھے صرف یہ خواہش ہے کہ (قیامت کے روز) اس خلافت سے میرے حصے میں یہ آ جاے کہ (حساب کتاب) برابر سرابر ہو جائے۔ نہ میرے خلاف ہو، نہ میرے حق میں (چاہے انعام نہ ملے، مگر سزا سے بچ جاؤں) اگر میں جانشیں مقرر کروں تو انہوں نے مقرر کیا جو مجھ سے بہتر تھے، یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اگر میں تمہیں ایسے ہی چھوڑ دوں تو انہوں نے تمہیں (جانشیں مقرر کیے بغیر) چھوڑ دیا جو مجھ سے (بہت زیادہ) بہتر تھے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ جانشیں مقرر نہیں کریں گے
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب میرے باپ زخمی ہوئے، تو میں حاضر تھا، لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا، اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، انہوں نے کہا، میں اللہ کی نعمتوں کا امیدوار ہوں اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہوں، لوگوں نے کہا، آپ خلیفہ مقرر فرما دیں، انہوں نے کہا، کیا میں تمہارا ذمہ زندگی اور موت دونوں صورتوں میں اٹھاؤں؟ میری تمنا ہے، کہ مجھے خلافت سے برابر برابر چھٹکارا مل جائے، نہ مجھ سے مؤاخذہ ہو اور نہ مجھے اجر و ثواب ملے، اگر میں کسی کو خلیفہ بنا دوں، تو مجھ سے بہتر شخصیت یعنی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جانشین بنا چکے ہیں اور اگر میں تمہیں بغیر جانشین کے رہنے دوں، تو تمہیں اس طرح مجھ سے بہتر شخصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ چکے ہیں۔
سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا: میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انہوں نے کہا: کیا تم کو علم ہے کہ تمہارے والد کسی کو (اپنا) جانشیں مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا: وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ کہنے لگیں: وہ یہی کرنے والے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے قسم کھائی کہ میں اس معاملے میں ان سے بات کروں گا، پھر میں خاموش ہو گیا حتی کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے اس معاملے میں بات نہیں کی تھی، اور مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں نے اپنے دائیں ہاتھ میں پہاڑ اٹھایا ہوا ہے (مجھ پر اپنی قسم کا بہت زیادہ بوجھ تھا) آخر کار میں واپس آیا اور ان کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا، میں آپ کو حالات سے باخبر کرنے لگا، پھر میں نے ان سے کہا: میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی اور وہ سن کر میں نے قسم کھائی کہ وہ میں آپ سے ضرور بیان کروں گا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی کو اپنا جانشیں نہیں بنائیں گے اور بات یہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا ہو اور وہ آپ کے پاس چلا آئے اور ان کو ایسے ہی چھوڑ دے تو آپ یہی کہیں گے کہ اس نے ان کو ضائع کر دیا ہے۔ سو لوگوں کی نگہبانی تو اس سے زیادہ ضروری ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو میری رائے ٹھیک معلوم ہوئی، انہوں نے گھڑی بھر سر جھکائے رکھا، پھر میری طرف سر اٹھا کر فرمایا: بلاشبہ اللہ عزوجل اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں کسی کو جانشیں نہ بناؤں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو جانشیں مقرر نہیں کیا تھا اور اگر میں کسی کو جانشیں بناؤں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جانشیں بنایا تھا۔ (دونوں میں سے کسی بھی مثال پر عمل کیا جا سکتا ہے۔) انہوں (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ کی قسم! جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کبھی نہیں ہٹیں گے اور وہ کسی کو جانشیں بنانے والے نہیں
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے، تمہارے باپ کسی کو جانشین مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا، وہ ایسا نہیں کریں گے، انہوں نے کہا، وہ ایسا ہی کریں گے، تو میں نے قسم اٹھائی، کہ میں اس مسئلہ میں ان سے گفتگو کروں گا، لیکن میں خاموش رہا، حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے گفتگو نہ کی اور قسم اٹھانے کے باعث مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا، گویا کہ میں پہاڑ اٹھائے ہوئے ہوں، حتیٰ کہ میں واپس آ کر ان کے پاس حاضر ہوا، تو انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا اور میں نے انہیں آگاہ کیا، میں نے ان سے پوچھا، میں نے لوگوں سے ایک بات سنی ہے اور میں نے قسم اٹھائی ہے، کہ وہ میں آپ کو بتاؤں گا، لوگوں کا خیال ہے، آپ خلیفہ مقرر نہیں کر رہے اور صورت حال یہ ہے، اگر آپ کے اونٹوں کا کوئی چرواہا ہو یا آپ کی بکریوں کا چرواہا ہو، پھر وہ انہیں چھوڑ کے آپ کے پاس آ جائے اور آپ کی رائے میں اس نے ان کو ضائع کر دیا ہو گا، تو لوگوں کی نگرانی کا معاملہ تو بڑا سنگین ہے اور انہوں نے میری موافقت کی اور کچھ دیر کے لیے اپنا سر جھکا لیا، پھر اسے اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا، اللہ عزوجل اپنے دین کا محافظ ہے، وہ حفاظت کرے گا اور اگر میں خلیفہ نہ بناؤں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں بنایا تھا اور اگر خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر خلیفہ بنا چکے ہیں، اللہ کی قسم! جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کا ذکر کیا، تو مجھے یقین ہو گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو قرار نہیں دیں گے اور وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔